سینیٹ میں اپوزیشن کے اتحاد نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی کو بالاخر نیا چیئرمین سینیٹ منتخب کرا لیا ہے۔ خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے والے انتخاب میں 103 سینیٹرز نے اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔ صادق سنجرانی کو 57 جبکہ ان کے مدمقابل حکومتی اتحاد کے امیدوار راجا ظفر الحق صرف 43 ووٹ حاصل کر پائے۔ سینیٹر سردار یعقوب خان ناصر نے نومنتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے حلف لیا جس کے فوری بعد انہوں نے ایوانِ بالا کے قائد کی نشست سنبھال لی۔
اس کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے ووٹنگ ہوئی جس میں اپوزیشن کی جانب سے سلیم مانڈوی والا اور حکومتی اتحاد کی جانب سے عثمان کاکڑ مدمقابل آئے۔ سلیم مانڈوی والا 54 ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے جبکہ عثمان کاکڑ 44 ووٹ حاصل کر پائے۔ خیال رہے کہ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں ایم کیو ایم کے سینیٹرز نے حصہ نہیں لیا۔
بلوچستان کے علاقے چاغی سے تعلق رکھنے والے نومنتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا عوامی سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا تاہم وہ سابق وزرائے اعظم میاں محمد نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے کوآرڈینیٹر رہ چکے ہیں۔ صادق سنجرانی 1998ء میں میاں نواز شریف کے کوآرڈینیٹر رہے جبکہ بعد ازاں 2008ء میں اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا جس کے بعد وہ پانچ سال تک اسی منصب پر فائز رہے۔ رپورٹس کے مطابق صادق سنجرانی سابق صدر آصف علی زرداری سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا سینیٹ سے روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ میں آصف زرداری اور عمران خان سمیت تمام دوستوں کا مشکور ہوں، ایوانِ بالا میں سب کو ساتھ لے کر چلوں گا اور کسی کے ساتھ کسی قسم کی نا انصافی نہیں ہونے دونگا۔ صوبہ بلوچستان اور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرونگا۔ صادق سنجرانی کا کہنا تھا کہ میں وزیرِ اعلی بلوچستان کا مشکور ہوں جنہوں نے میرا انتخاب کیا۔
اس سے قبل سینیٹ الیکشن میں صورتحال اس وقت دلچسپ ہو گئی جب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے تین سینیٹرز ایوان سے غیر حاضر رہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی قیادت شدید تذبذب کا شکار رہی۔ دنیا نیوز کے ذرائع کے مطابق جے یو آئی (ف) کے مولانا عطا الرحمان، عبدالغفور حیدری اور مولوی فیض محمد ایوان سے غائب تھے تاہم کچھ دیر بعد ان کی واپسی ہو گئی۔
سینیٹ کے کُل ارکان کی تعداد 104 ہے لیکن خفیہ ووٹنگ میں 103 ارکان نے حصہ لیا۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین بننے کیلئے 52 ووٹ درکار تھے۔ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز کی تعداد 33 ہے جن میں سے اسحاق ڈار بیرون ملک ہونے کے باعث ووٹ کاسٹ نہیں کر سکے۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کو پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 5، نیشنل پارٹی 5، جے یو آئی (ف) 4، مسلم لیگ فنکشنل، اے این پی اور بی این پی مینگل کے ایک ایک ارکان کی حمایت بھی حاصل تھی، جن کی کل تعداد 50 بنتی ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی ن لیگ کی حمایت کا اعلان کیا تھا جن کے پاس سینیٹرز کی تعداد 2 ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی 20، تحریک انصاف 13، بلوچستان کے آزاد سینیٹرز 6 اور یوسف بادینی کے ووٹ کو شامل کر کے کل تعداد 40 بنتی ہے۔ ایم کیو ایم اور فاٹا اراکین نے بھی اپوزیشن کے آزاد امیداوار کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
انتخابات سے قبل میڈیا سے گفتگو میں ایم کیو ایم کے رہنماء خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمارے 5 ارکان صادق سنجرانی کا ساتھ دیں گے۔ ہم نے ایسے موقع پر فائدے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ صادق سنجرانی کو ووٹ بھی دیں گے اور مہم بھی چلائیں گے۔
فاٹا رکن سینیٹر ہدایت اللہ کا کہنا تھا فاٹا کے تمام 8 ووٹ صادق سنجرانی کو دینگے، فاٹا اراکین نے ڈپٹی چئیرمین شپ کے لئے تمام جماعتوں سے رابطہ کیا لیکن کسی پارٹی نے مثبت جواب نہ دیا۔ انہوں نے کہا بلوچستان کی اس لئے حمایت کر رہے ہیں کہ وہ ہماری طرح پسماندہ علاقہ ہے فاٹا سینیٹرز سنجرانی کو ووٹ دینگے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چیئرمین سینیٹ بننے پر صادق سنجرانی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے فیصلے سے وفاق مضبوط ہو گا۔ ہم وفاق اور بلوچستان کے عوام کی اس کامیابی پر خوش ہیں۔
یاد رہے کہ دنیا نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے وزیرِ اعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا، بلوچستان کے حقوق دلوانے کی دعویدار قوم پرست جماعتیں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتوں رابطے میں ہیں۔ وقت سے پہلے اسمبلی توڑنے اور سینیٹ انتخابات نہ کرانے کے الزامات والوں کو منہ کی کھانی پڑی، پہلی مرتبہ بلوچستان کے فیصلے بلوچستان کے لوگوں نے کیے۔ ماضی میں کوئٹہ کے میئر کا فیصلہ بھی رائے ونڈ والوں کی مرضی سے ہوتا تھا، ہم نے اپنے فیصلے اب خود کیے ہیں۔