الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں سے متعلق جو ڈرافٹ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے ، اس پر خدشات یہ ہیں کہ کئی معاملات لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہیں گے ، مگر جب سامنے آئیں گے تو ان پر بہت زیادہ اعتراضات سامنے آئینگے۔
لاہور: ( کنور دلشاد ) الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں سے متعلق جو ڈرافٹ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے ، اس پر خدشات یہ ہیں کہ کئی معاملات لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہیں گے ، مگر جب سامنے آئیں گے تو ان پر بہت زیادہ اعتراضات سامنے آئینگے ۔ ایک اطلاع کے مطابق پانچ ہزار کے لگ بھگ اعتراضات اٹھائے جانے کا امکان ہے ۔ حلقہ بندیاں نئی مردم شماری رپورٹ سامنے رکھتے ہوئے کی گئی ہیں، مردم شماری کے محکمے نے کچھ اس انداز سے مردم شماری کی ہے کہ حکومت کے حامی اگر دیہی علاقے میں ہیں تو انہیں شہر میں دکھایا گیا ہے ، جبکہ شہری علاقے والے دیہی ایریا میں دکھائے گئے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہونیوالی حلقہ بندیوں کے بارے میں خدشات کا اظہار ہو رہا ہے۔
نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے رورل ایریا میں حکومت کے حامیوں کی کامیابی آسان ہو جائے گی، اربن میں حکومت کے مخالفین کیلئے کامیابی مشکل ہو جائے گی کیونکہ شہری آبادی باشعور ہونے کی وجہ سے حکومت کے بارے کافی تحفظات رکھتی ہے ۔ ووٹروں کی تقسیم کچھ اس انداز سے ہو رہی ہے کہ حکومت کے حامی ایک جگہ پر آجائیں ، جبکہ مخالف ووٹروں کا علیحدہ بلاک بن جائے ۔ سادہ الفاظ میں نئی حلقہ بندیوں پر بڑا اعتراض یہ ہو گا کہ حکومت مخالف ووٹر رورل ایریا میں ڈال دیئے گئے ہیں ، ایک بڑا اعتراض مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے سے متعلق ہے جس میں طے ہوا تھا کہ مردم شماری پر دوبارہ نظر ثانی ہو گی، پانچ فیصد پر باقاعدہ مردم شماری کرائی جائے گی، جس میں 18ہزار بلاکس کی نظرثانی شامل ہے۔
اپریل کے آخری ہفتے میں محکمہ شماریات گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر رہا ہے ، جس کے بعد ایک اعتراض یہ سامنے آئے گا کہ الیکشن کمیشن نے عبوری رپورٹ پر حلقہ بندیاں کی ہیں، جس کیلئے آئین میں ترمیم کرائی گئی۔ سیاسی پارٹیاں کہیں گی کہ اب چونکہ حتمی رپورٹ آ گئی ہے ، اس لئے حلقہ بندیاں اس پر ہونی چاہئیں ۔ سماعت کے دوران جب الیکشن کمیشن میں مطمئن نہیں کیا جا سکے گا تو معاملہ ہائیکورٹ میں چلا جائے گا۔ آئینی معاملہ یہی اٹھے گا کہ چونکہ مردم شماری کمیشن نے حتمی نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ، اس لئے آئین کے تحت حلقہ بندیاں حتمی نوٹیفکیشن کی بنیاد پر کی جائیں ۔ اس کے نتیجے میں آئندہ الیکشن وقت مقررہ پر نہیں ہو سکیں گے ، وہ ملتوی کرنا پڑیں گے ۔ تاہم اسمبلیاں 31 مئی کو تحلیل ہو جائینگی۔ جب معاملہ نگران حکومت کے سامنے پیش ہو گا تو نگران سسٹم کے تحت اسے ددیا تین ماہ اضافی لینا پڑ سکتے ہیں۔