سپریم کورٹ کے جج جسٹس مشیر عالم نے چارج شیٹ پڑھ کر سنائی۔ چارج شیٹ میں کہا گیا کہ دانیال عزیز نے 8 ستمبر 2017 کو پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ نگران جج جسٹس اعجاز الا حسن نے نیب حکام کو لاہور طلب کر کے ریفرنسز تیار کروائے ، 15 دسمبر 2017 کو دانیال عزیزنے عمران خان نااہلی کیس سے متعلق اپنے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سکرپٹ کے مطابق تھا ، صرف جہانگیر ترین کی نااہلی سے عمران خان اور تحریک انصاف کو بچانا مقصود تھا۔
چارج شیٹ میں مزید کہا گیا کہ 21 دسمبر کو دانیال عزیز نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن کو بتانا ہو گا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی بات ان تک کہاں سے پہنچی۔ دانیال عزیز نے فرد جرم پڑھ کر د ستخط کر دئیے ۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ کے گواہان کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ گواہ پی آئی ڈی اور پیمرا سے ہوں گے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ نے استغاثہ کا کردار ادا کرنا ہے وکیل صفائی نہیں بننا ، یاد رکھنا مقدمے میں دفاع کے گواہ نہ لے آنا۔ کیس کی آئندہ سماعت 26 مارچ کو ہوگی۔
خیال رہے گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے وفاقی وزیر کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کی تھی۔ دانیال عزیز کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا توہین عدالت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، نجی ٹی وی پر نشر بیان کا عدالت سے کوئی تعلق نہیں تھا ، دانیال عزیز تو یہ بات تین سال سے کر رہے تھے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اس کا مطلب ہے دانیال عزیز تین سال سے توہین عدالت کر رہے تھے ؟ جب سے جج ہوں کبھی توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کیا ، اپنے فیصلوں میں بھی لکھا کہ مناسب تبصرے ، حتیٰ کہ غیر مناسب تبصروں پر بھی کوئی اعتراض نہیں ، خود سوچیں کہ عدالت دانیال عزیز کے بیانات سے کتنی ناراض ہوئی ہوگی ؟ عدالت نے قرار دیا کہ دانیال عزیز کے بیان سے مطمئن نہیں کہ معاملہ ختم کر دیا جائے۔