سرکاری اشتہارات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بتایا جائے حکومت الیکشن سے پہلے کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کس قانون کے تحت دیتی ہے؟ فنڈز کو اراکینِ اسمبلی کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پنجاب میں سرکاری اشتہارات پر تصاویر ہیں، سیاسی تشہیر پر اٹھنے والے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ وہ اشتہار دکھائیں جس میں پی ٹی آئی چیئرمین یا وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کی تصویر تھی۔
صوبائی سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ آخری تین ماہ میں ایسا کوئی اشتہار نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سرکاری اشتہارات کے ذریعے تشہیر کی ہے وہ رقم واپس کی جائے۔
اے پی این ایس کی اشتہارات سے متعلق گائیڈ لائنز پر چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کو بھجوا دیتے ہیں، کسی کو اعتراض نہ ہوا تو فیصلہ کر دیں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کیا کہ عدالت نے کسی کے اشتہارات نہیں روکے، صرف تصویر والے اشتہارات بند کیے ہیں کیونکہ نہیں چاہتے کہ میڈیا انڈسٹری کا بزنس متاثر ہو۔ خیبر پختونخوا حکومت نے تین ماہ میں اشتہارات کی مدت میں 24 کروڑ روپے اپنی تشہیر پر لگا دئیے۔ عدالت نے سیکرٹری اطلاعات خیبر پختونخوا کو اشتہارات میں عدم توازن سے متعلق رپورٹ تین ماہ میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 4 اپریل تک ملتوی کر دی۔