پشاور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے خوف، مصلحت اور مفاد زہر مہلک ہے، انصاف فراہم کرنا ججز کی ذمہ داری ہے، فیصلے قانون کے مطابق ہونا چاہیئے۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے جوڈیشل اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ایک غلط فیصلے کے نتائج دور تک آتے ہیں ، جلد انصاف دینے کے مشن پر چلنا ہے ، کسی کو انصاف کے بجائے تاریخ ملے تو وہ کیا محسوس کرے گا ؟ انہوں نے کہا سفارش مت مانیے، یہاں پر وہ لوگ جنہیں آپ خوش کرنا چاہیں گے، وہ آگے جا کر آپ کی مغفرت اور بخشش کی سفارش نہیں کرسکتے، جن کو آج سفارش کی بنیاد پر آپ یہاں چاہتے ہیں کہ وہ آپ سے ناراض نہ ہوں، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جا کر آپ کی سفارش بھی نہیں کر سکیں گے۔
قبل ازیں چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے پشاور ہائیکورٹ بار روم میں ججوں اور مختلف بار کے صدور سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس آدمی کو وقت پر انصاف نہیں ملتا اس کی تکلیف ہسپتال کے مریض جیسی ہے۔ انہوں نے کہا صدیوں پرانا قانون تبدیل نہیں کیا گیا جس کی ذمہ دار سپریم کورٹ نہیں، حکومت کی جانب سے سپورٹ نہیں لیکن ہمیں اپنی کوشش کرنی ہوگی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہماری جدوجہد میں بار کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ، کوئی ایسا قانون کیوں نہیں بنایا جاتا جس سے جھوٹ کا نظام ختم ہو جائے ، ہم پر تنقید کی جاتی ہے کہ فیصلے قانون کے مطابق اور جلد نہیں کر رہے، بہت سی وجوہات ہیں جنہوں نے اس نظام کو خراب کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے بارے میں کوئی یہ نہ کہے کہ ہم نے ذمے داری پوری نہیں کی، بار اور عدلیہ کو ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا ہے ، کیوں بار اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا ؟۔
چیف جسٹس پاکستان کہنا تھا کہ انصاف تول کر دیا جانا چاہئے، جسٹس دوست محمد کی ہر خواہش پوری کی، ان کو کہا آپ کس دن ریفرنس لیں گے تو انہوں نے جواب دیا ریٹائرمنٹ والے دن، ہم نے ان کیلئے ایک تحفہ خریدا جس پر اپنے نام لکھے، ان کی بیگم کیلئے ایک شال بھی لی ، ان کی چٹھی آئی کہ میں ریفرنس نہیں لینا چاہتا، ہم نے انہیں کھانے کی آفر کی لیکن انہوں نے چائے کی ہامی بھری۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہ مجھے 225 پٹیشنز ملیں جو میں نے نمٹائیں، ہم پر الزام ہے کہ ہم جلدی کام نہیں کرتے، مجھے پشاور ہائیکورٹ میں کہا گیا کہ آپ پشتونوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں، پشتون تو ہماری جان ہیں۔