اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے سٹیٹ بینک سے گزشتہ ایک سال میں 50 ہزار ڈالر سے اوپر بیرون ملک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کہتے ہیں کہ ایسی پالیسیاں خود بنائی گئیں کہ پیسہ بیرون ملک چلا جائے۔ یہ ریاست کی ناکامی ہے، غیر قانونی دولت واپس لانی ہے۔
پاکستانیوں کی بیرونِ ممالک جائیدادوں اور اکاؤنٹس کے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عدالت جاننا چاہتی ہے کہ کتنے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس اور املاک ہیں؟ عدالتی کارروائی کا مقصد یہی ہے کہ باہر بھیجی گئی غیر قانونی دولت کیسے واپس لائی جا سکتی ہے؟
گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ خالد انور کمیٹی کے ٹی او آرز میں یہ بات شامل نہیں تھی۔ موجودہ قوانین اور معاہدوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ہم انتظار کریں، حکومت پہلے معاہدہ کرے اور پھر عدالتی کارروائی ہو؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سٹیٹ بینک کے پاس معلومات ہیں کہ کس شخص نے کتنے ڈالر بیرون ملک بھیجے؟ گورنر نے جواب دیا بینکوں سے یہ معلومات لے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا ایک سال میں جتنی رقم باہر گئیں، ساری معلومات لیں اور بند لفافے میں پیش کریں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ اثاثوں کو پکڑنے کیلئے فارن اکاؤنٹس میں ٹرانزیکشن کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ گورنر نے بتایا 1992ء کے قانون کے مطابق یہ ٹرانزیکشن خفیہ ہوتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا 1992ء کا قانون دکھا دیں، اس کو معطل کر دیتے ہیں۔ کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے ہو گی۔