قائداعظم کی تصویر: انتہاپسندوں کو تکلیف کیوں؟

Last Updated On 02 May,2018 03:23 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قائداعظم کی تصویر نے کٹر ہندو انتہا پسندوں کے تن بدن میں آگ لگا دی ہے۔ بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی ستیش گوتم نے اس بارے زہر آلود خط وائس چانسلر طارق منصور کو تحریر کر دیا تاہم یونیورسٹی نے ان کی شکایت مسترد کر دی۔

یو نیورسٹی کے ترجمان شافع قدوائی نے دہائیوں سے آویزاں پورٹریٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جناح صاحب یونیورسٹی کے بانی تھے اور ان کو طلبہ یونین کی تاحیات رکنیت دی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ روایتی طور پر تاحیات ارکان کی تصاویر طلبہ یونین کے آفس میں آویزاں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جناح صاحب کو اے ایم یو کی طلبہ یونین نے 1938 میں تاحیات رکنیت دی تھی، وہ 1920ء میں یونیورسٹی کورٹ کے بانی رکن تھے اور چندہ بھی دیتے تھے۔ ترجمان نے کہا کہ آزادی کے بعد قومی رہنمائوں مہاتما گاندھی، مولانا آزاد، سروپالی رادھا کرشنن، سی راج گوپال اچاریہ، چندرپرشاد اور جواہر لال نہرو نے بھی تصویر پر اعتراض نہیں کیا تھا۔

شافع قدوائی نے کہا کہ سیاسی ، سماجی اور تعلیمی شعبہ سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کو تاحیات رکنیت دینا اے ایم یو طلبہ یونین کی پرانی روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصاویر غیر منقسم ہندوستان کے شاندار ورثہ کا حصہ ہیں اور اس سے پہلے کسی نے اس ایشو کو اٹھانے کا سوچا بھی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ طلبہ یونین کی طرف سے سب سے پہلے تاحیات رکنیت مہاتما گاندھی کو 20 اکتوبر 1920ء کو دی گئی تھی۔ اس کے بعد راج گوپال اچاریہ، نہرو، سروجنی نائیڈو، سی وی راجن اور برطانوی مصنف ای ایم فورسٹر جیسی سرکردہ شخصیات کی طویل فہرست ہے جنہیں تاحیات رکنیت دی گئی۔

 یہ تنازع گزشتہ ہفتے سامنے آیا جب وائس چانسلر کو آر ایس ایس( انتہا پسند ہندو تنظیم ) کی طرف سے مراسلہ موصول ہوا جس میں کیمپس میں آر ایس ایس کا پرچم لہرانے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔ شافع قدوانی نے بتایا کہ یونیورسٹی کی طرف سے کسی بھی سیاسی پارٹی کو کیمپ لگانے یا پرچم لہرانے کی اجازت دینے پر کوئی غور نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری یہ روایت ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ طلبہ یونین یا ٹیچرز ایسوسی ایشن کے لئے اپنے امیدوار کھڑے کرے۔