کراچی: (روزنامہ دنیا) یوگنڈا کی پارلیمنٹ نے فیس بک، واٹس اپ، ٹوئٹر اور وائبر کے ذریعے گپ شپ کرنے والوں پر ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دی ہے۔
1986 سے برسر اقتدار صدر یاویری موسیوینی اس ٹیکس کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے ملک بھر میں لوگ اپنا وقت فضول باتوں میں ضائع کرتے ہیں۔ اس فیصلے پر روزنامہ دنیا نے نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین سے ان کی رائے معلوم کی تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسا کوئی ٹیکس نہیں لگایا جانا چاہیے۔ نوجوان سماجی کارکن فیصل ارشاد کا کہنا تھا کہ کسی چیز کے غلط استعمال کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے یا اس پر ٹیکس لگایا جائے۔ سوشل میڈیا اس وقت آزادی رائے اور اطلاعات کا سب سے تیز ذریعہ ہیں۔ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا یہ اچھا پلیٹ فارم ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کو کچھ لوگ غلط طریقے سے استعمال کر رہے ہیں تو روک تھام کے لیے سائبر کرائم کے ادارے موجود ہیں۔ وہ کارروائی کریں۔
کراچی یونیورسٹی کی طالبہ سدرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ پہلے تو اس بات کا تعین کیا جائے کہ ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کا مثبت استعمال زیادہ ہے یا منفی۔ سوشل میڈیا سے لوگوں کو جتنے فائدے ملتے ہیں ان کے مقابلے میں نقصانات کم ہیں۔ اگر کہیں اس کا غلط استعمال ہو بھی رہا ہے تو اسے روکا جائے نہ کہ فیس بک، ٹوئٹر، واٹس اپ اور دیگر ذرائع ابلاغ پر ٹیکس ہی لگا دیا جائے۔ آج کل ہر شعبے میں انٹر نیٹ مددگار ثابت ہورہا ہے ۔ کچھ نوجوان اگر اس کا منفی استعمال کر رہے ہیں تو سائبر کرائم کے اداروں کو ان پر نظر رکھنی چاہیے۔
بزرگ شہری محمد ایوب کا کہنا تھا کہ عوام کے لیے سوشل میڈیا بہت بڑی سہولت کا درجہ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی پیغام بہت تیزی سے ہزاروں افراد تک پہنچایا جاسکتا ہے ۔ حکومت ایسے پروفیشنلز کی خدمات حاصل کرے جو سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر نظر رکھنے کے ماہر ہوں۔ خاتون خانہ صائمہ جاوید کا کہنا تھا کہ واٹس اپ، فیس بک اور دیگر سوشل ویب سائٹس عوام کے لیے رابطے کی اچھی سہولت ہیں۔ ان کے ذریعے لوگ کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ یہ ویب سائٹس خبریں تیزی سے پھیلانے کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔ جہاں جہاں سوشل میڈیا کو غلط ڈھنگ سے استعمال کیا جارہا ہے وہاں فلٹر لگادیا جائے ۔ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس پر تمام آپشنز موجود ہوتے ہیں۔