لاہور: (روزنامہ دنیا) سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی نہ تو تنظیم ہے، نہ کوئی انداز فکر ہے۔ ایک فارم بدلنے سے الیکشن کیسے آگے ہو سکتے ہیں ؟ پرواگرام تھنک ٹینک کی میزبان عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ فارم میں صرف یہ ہی پوچھا گیا تھا کہ آپ کے بیرون ملک اثاثے کتنے ہیں ۔ آپ کے اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیل کیا ہے۔ آپ کتنا ٹیکس دیتے ہیں ؟ یہ کسی 62 یا 63 کے خلاف نہیں تھا ۔ یہ فیصلہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ رضا ربانی خود بھی روتے رہتے ہیں ۔ اور دوسروں کو سنتے بھی نہیں ، زرداری صاحب کو فالو کرتے رہتے ہیں اور پارلیمنٹ پر روتے رہتے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کو دیکھ لیں ۔ وہ کیا کرتی ہیں۔
معروف کالم نگار ،تجزیہ کار ایاز امیرنے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے ایک فیصلے سے سارے ابہام دور ہو گئے ۔ ہر کوئی اپنے کام میں مصروف ہو گیا ،نگران وزیر اعظم نے آتے ہی اس پر بات کی ا ور حکم دیا کہ اس پر اپیل کی جائے ۔ چیف جسٹس نے کتنے کام کیے ۔ ہر کوئی اسی طرح کام کرے تو ملک آگے جا سکتا ہے ۔ چیف جسٹس نے ہائیکورٹ کے حکم کو معطل کر دیا اور تمام ابہام دور ہو گیا ، اگر وہ نہ کرنا چا ہتے تو الیکشن کی ساری بساط ہی لپٹ جاتی،اب فیصلہ ہو چکا الیکشن وقت پر ہوں گے ، چیف جسٹس کی انگلی اگر اسطرف ہل جاتی تو سارے کے سارے امیدوار گھر چلے جاتے ۔ سینٹ کا اجلاس بلانا اور الیکشن تک چلانا ایک فضول بحث ہے۔
معروف تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے کہا ہے کہ جب الیکشن شیڈول جاری ہو جائے تو کسی کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چا ہئے ، نہ ہی اس کے متعلق حکم دینا چا ہئے ۔ ہماری روایت بھی ایسی ہی ہے اور بھارت میں بھی اسی طرح ہو تا ہے ۔ کیونکہ جب آپ یہاں حکم دیتے ہیں تو سارے کا سارا سسٹم خراب ہو جاتا ہے ۔ چیف جسٹس صاحب نے جو آ ج حکم دیا ہے وہ بہت اچھا دیا ہے ۔ اس سے کاغذات نامزدگی آج سے جمع ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ انہوں نے پرانا فارم بحال کر دیا ہے ۔ یہ بہت اچھا اقدام ہے ۔ باقی خانہ پوری بعد میں ہوتی رہے گی۔
تجزیہ کار ڈاکٹرحسن عسکری نے کہا ہے کہ ہماری وفا داری نظام کے ساتھ ہونی چاہئے ، کسی شخص یا ادارے کے ساتھ نہیں ہونی۔ سپریم کورٹ نے اچھا فیصلہ کیا۔