اسلام آباد: (دنیا نیوز) احتساب عدالت نے لندن فلیٹس ریفرنس میں حتمی بحث کے خلاف نواز شریف کی درخواست مسترد کر دی۔
نیب پراسیکیوٹر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپنے حتمی دلائل میں کہا ہے کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے فلیٹس 1993 سے شریف خاندان کی تحویل میں تھے۔ نیب نے اپنی زمہ داری پوری کر دی ہے، اب بار ثبوت ملزن پر ہے لیکن ملزمان کی طرف سے اپنے دفاع میں کچھ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ حسین اور حسن نواز کو جان بوجھ کر کیس سے دور رکھا گیا۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب ٹیم نے اپنا کیس ثابت کرنے کیلئے لندن جا کر شواہد اکٹھے کیے اور رابرٹ ریڈلے کو بھی بطور گواہ پیش کیا۔ ملزمان کی طرف سے ٹرسٹ ڈیڈ کا کوئی گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ ملزمان جیرمی فری مین کو اپنے دفاع میں بطور گواہ پیش کر سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ مان بھی لیا جائے کہ جے آئی ٹی نے جان بوجھ کر قطری کا بیان قلمبند نہیں کیا تو ملزمان اب اسے اپنے دفاع میں پیش کر دیتے، قطری شہزادے کی طرف سے لندن فلیٹس اور کمپنیز کی ملکیت سے متعلق کوئی دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، دستاویزات اس عدالت میں پیش کی جاسکتی تھیں لیکن ملزمان نے ایسا نہیں کیا۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے الزام عائد کیا کہ 2006 سے پہلے بھی بیرئیر شئیرز ملزمان کی تحویل میں تھے۔ نئے قانون کے بعد ملزمان کی طرف سے بیرئیر شئیرز کو ظاہر کیا گیا۔ 2004 میں بی وی آئی میں نیا قانون نہ آتا تو ہم اب بھی خاک چھان رہے ہوتے۔ نیب نے جو دستاویزات پیش کی وہ آفیشل چینل سے حاصل کی گئی، واجد ضیاء، عمران ڈوگر اور رابرٹ ریڈلے کی ملزمان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔ نیب پراسیکیوٹر بدھ کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔