ن لیگ میں چودھری نثار کی سیاست کا فیصلہ کن موڑ

Last Updated On 13 June,2018 10:28 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مسلم لیگ ن میں سابق وزیر داخلہ چودھری نثار کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال ایک فیصلہ کن مرحلہ پر پہنچ گئی اور اس امر کا قوی امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں اسکا ڈراپ سین سامنے آ جائے ، کیونکہ مسلم لیگ ن کی سطح پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اب چودھری نثار کے حلقوں میں واک اوور دینے کے بجائے ان کے مقابلہ میں پارٹی امیدوار لائے جائیں گے جس کیلئے پارٹی امیدواروں کو تیار کر لیا گیا ہے اور چودھری نثار نے بھی عندیہ دے دیا ہے کہ اب وہ آزاد حیثیت میں انتخابی میدان میں اتریں گے۔

جلتی پر تیل کا کام خود پارٹی کے ترجمان پرویز رشید کے اس بیان نے کر دیا کہ چودھری نثار نے پارٹی کی اینٹیں تو نہیں جوڑیں البتہ انہیں چوری کرنے میں ضرور ناکام رہے۔ انہوں نے مریم نواز کے سیاسی کردار بارے کہا کہ مریم نواز نے پارٹی کو اس وقت سہارا دیا جب چودھری نثار پارٹی سے غداری کے مرتکب ہو رہے تھے۔ پرویز رشید کا کہنا ہے کہ میں نے وزارت خود چھوڑ کر اس سازش کو ناکام بنایا جو چودھری نثار نے تیار کی تھی۔ لہٰذا مذکورہ بیان یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اب جماعت کے اندر چودھری نثار کے معاملہ میں کوئی گنجائش نہیں رہی اور اس حوالے سے بڑا امتحان خود مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کیلئے کھڑا ہو گیا ہے جو چودھری نثار سے اپنی دوستی اور تعلق کی بنا پر ان کی قربانی کیلئے تیار نہیں تھے لہٰذا مذکورہ صورتحال کے پیش نظر تین اہم سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

کیا نواز شریف اور چودھری نثار کے درمیان اختلافات کے معاملے پر شہباز شریف کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ دوسرا اہم سوال کہ اگر چودھری نثار ن لیگ سے چلے گئے تو یہ محض ایک شخص کا جانا ہو گا یا اس کے اثرات بھی ہونگے ؟ کیا آنے والے حالات اور انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شہباز شریف چوہدری نثار کے بغیر کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں؟ لگتا یہی ہے کہ چودھری نثار نواز شریف کے بعد شہباز شریف تک تو خاموش ہیں مگر خود شہباز شریف نواز شریف کی موجودگی میں علامتی طور پر کرسی صدارت پر براجمان ہیں اور نواز شریف نے عملاً پارٹی کی باگ ڈور اپنی بیٹی مریم نواز کو سونپ رکھی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جو چودھری نثاراور شہباز شریف کی روایتی دوستی اور اسٹیبلشمنٹ سے پرانی رفاقت کو راس نہیں آ رہی ہے۔

اس سارے معاملے میں واضح ہو چکا ہے کہ شہباز شریف، چودھری نثار اور نواز شریف کے درمیان پل بننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ چودھری نثار چلے گئے تو یہ محض ایک شخص کا جانا ہو گا ؟ نہیں ایسا ممکن نہیں کیونکہ چودھری نثار ہمیشہ ن لیگ میں نواز کے ساتھ ساتھ نثار کے حصے اور خدمات کی بھی بات کرتے ہیں۔ یہ بظاہر ممکن نہیں کہ نثار کی بغاوت اگر ظہور پذیر ہو جائے تو صرف ایک شخص کا نقصان ن لیگ کو بھاری پڑ جائے گا۔ خصوصاً ن لیگ کے نئے قائد شہباز شریف کا خاصا نقصان ہو گا۔ آخری سوال نثار کے بغیر شہباز شریف کا سیاسی میدان میں کھڑے رہنا اور اسٹیبلشمنٹ سے پس پردہ ریلیف کا معاملہ ہے۔ اگر نواز شریف جیل چلے گئے اور مریم نواز بھی سیاسی منظر نامے پر موجود نہ رہیں تو شہباز شریف کو سیاسی بقا کیلئے چودھری نثار جیسے سیاستدان کا سہارا ڈھونڈنا پڑے گا، اور اس مرحلے پر نواز شریف اور مریم نواز کی صفوں میں کھڑے تیر انداز ان کے کسی کام نہیں آئینگے۔

بہر حال چودھری نثار کی جہاں تک مریم نواز کی قیادت پر تنقید کا معاملہ ہے تو حقیقت یہ ہے کہ مریم نے یہ را ستہ خود نہیں چنا اور حالات نے انہیں نوازشریف کے دفاع پر باہر لا کھڑا کیا اور مریم نے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ اس صورتحال میں چودھری نثارسے یہی توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ اپنے لیڈر کی بیٹی کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ۔ ویسے بھی اگر نواز شریف چودھری نثار کے درمیان اختلافات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو جن ایشوز پر نثار نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نواز شریف کو اس سے بچنے کا مشورہ دیا تھا وہ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اسکا شکار بن چکے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ چودھری نثار جیسے کردار کو جماعت سے فرار کا راستہ دینے کے بجائے انہیں ہضم کر لیا جاتا ۔ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں وہ ایک مرتبہ پھر ان کیلئے کسی بالواسطہ یا بلاواسطہ ریلیف کا ذریعہ بن جاتے۔