لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) مسلم لیگ (ن) نے سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے مقابلہ میں اپنے پارٹی امیدوار دستبردار کرانے کے آپشن پر نظرثانی کرتے ہوئے این اے 59 کیلئے راؤ قمر اسلام اور این اے 63 کیلئے ممتاز خان کو ٹکٹ جاری کر دئیے ہیں اور واضح کیا کہ ایک شخص جس نے پارٹی ٹکٹ کیلئے درخواست نہیں دی اور پارٹی ڈسپلن میں رہنے سے انکار کیا، اسے ٹکٹ جاری کرنے ، اس کے مقابلہ سے امیدوار دستبردار کرانے اور اسے فری ہینڈ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جماعت کی جانب سے کئے جانے والے اس اطلاق اور ٹکٹ جاری کرنے کے عمل کے بعد پارٹی کے صدر شہباز شریف اور دیگر سینئر قائدین کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور پارٹی ٹکٹ خود شہباز شریف کے دستخطوں سے جاری ہوئے ہیں لہٰذا بیک ڈور ڈپلومیسی کا ڈراپ سین ہوگیا، اور اب مسلم لیگ (ن) کھلے طور پر انتخابی میدان میں اپنے امیدواروں کیلئے اترے گی اور دوسری جانب خود چودھری نثار علی خان کو بھی اس صورتحال سے نجات مل گئی جس سے وہ دوچار تھے اور یقیناً اب اس کے بعد وہ (ن) لیگ کی لیڈر شپ خصوصاً نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں خصوصاً پرویز رشید اور مریم نواز کے خلاف کھل کر کھیل سکیں گے۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ شہباز شریف کی جانب سے کی جانے والی کوشش اور کاوش کیونکر کامیاب نہ ہوسکی اور چودھری نثار علی خان کے حوالے سے وہ کون سے تحفظات ہیں جو (ن) لیگ کی لیڈر شپ ہضم نہیں کر پا رہی اور اب ٹکٹ جاری ہونے کے بعد گومگو کی کیفیت کے خاتمہ پر مسلم لیگ (ن) کی سیاست اور انتخابات پر کیا اثرات پیدا ہوں گے۔
جہاں تک چودھری نثار علی خان کے حوالے سے سامنے آنے والے حتمی فیصلے اور ٹکٹ جاری ہونے کے عمل کا تعلق ہے تو ایک چیز تو واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ پارٹی صدارت شہباز شریف کے پاس چلے جانے کے باوجود جماعت، اس کے فیصلوں اور پالیسیوں کے حوالے سے گرفت میاں نواز شریف کی ہے، یہی وجہ ہے کہ امیدوار دستبردار کرانے کے فیصلے کے بعد باقاعدہ امیدوار میدان میں آگئے ہیں اور پارٹی کے اندر وہ لابی کامیاب رہی جو چودھری نثار علی خان پر مائنس ون کے فارمولا کو آگے بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے درپردہ رابطوں پر تنقید کرتی رہی جس کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن)کے قائد نواز شریف کے خلاف ہونے والے سارے عمل کے ذمہ دار مخالفین بعض ادارے ہی نہیں بلکہ کچھ اپنوں کا بھی اس میں ہاتھ ہے جس میں وہ چودھری نثار علی خان کا نام لیتے آئے ہیں۔
دوسری جانب (ن) لیگ میں شہباز شریف اور بعض سینئررہنما چودھری نثار علی خان کے طرز عمل پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے بھی ان کے حوالے سے سافٹ کارنر رکھتے تھے۔ نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل میاں شہباز شریف نے نثار علی خان کے حوالے سے آخری کوشش ون ٹو ون ملاقات میں کی اور شہباز شریف یہ سمجھتے تھے کہ میاں نواز شریف نے ان کے حوالے سے لچک دی اور بعدازاں یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ چودھری نثار علی خان کو براہ راست امیدوارنہ بنایا جائے اور انکے مقابلہ میں امیدوار دستبردار کرائے جائیں اور یہ فیصلہ میڈیا پر آنے کی دیر تھی کہ نواز شریف کی لابی نے اسے ہضم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ اعلان اور یہ اقدام ہمارے اپنے بیانیہ سے انحراف کے مترادف ہے اور جماعتی ڈسپلن پامال کرنے والے کسی شخص کو اس طرح قبول کر لیا گیا تو یہ آنے والے حالات اور انتخابات میں ہمارے لئے شدید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا وہی ہوا کہ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والا فیصلہ لندن سے آنے والی ایک ویٹس اپ کال کے ذریعہ تبدیل ہوگیا اور میڈیا کو باقاعدہ چودھری نثار علی خان کے خلاف کھڑے ہونے والے امیدواروں کے ٹکٹ بھی جاری کر دئیے گئے جن پر شہباز شریف کے بطور صدر دستخط موجود ہیں لہٰذا اب کہا جاسکتا ہے کہ چودھری نثار کے حوالے سے حتمی فیصلہ ہوگیا ہے۔
یقیناً شہباز شریف اس پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں تو نہیں ہوں گے لیکن اس امر کا احساس ہوگیا ہوگا کہ پارٹی صدارت میں وہ اس حد تک بھی خود مختار نہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ چودھری نثار علی خان کیلئے آخری حد تک گئے ۔اب دیکھنا ہوگا کہ جو لوگ چودھری نثار علی خان کے حوالے سے جماعت کے اندر سافٹ کارنر کا اظہار کر رہے تھے وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں؟ البتہ چودھری نثار علی خان ضرور اس پر ردعمل ظاہر کریں گے اب ان پر کوئی اخلاقی اور سیاسی قدغن نہیں البتہ شہباز شریف کے حوالے سے ان کا طرز عمل کیا ہوگا اس بارے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بظاہر ہمدردی کرتے نظر آئیں۔