لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) مسلم لیگ ن سے اصولی اختلاف کی بنا پر انتخابات میں آزاد حیثیت سے میدان میں کودنے والے چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر اس موقف کو دہرایا ہے کہ پارٹی سے اختلاف کیا تھا بغاوت نہیں اور مسلم لیگ ن کو نقصان پہنچانے کا تصور نہیں کر سکتا۔ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان نے ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کے اندر اس لابی کو پریشان کر دیا ہے جو ان سے متعلق ہر ایشو پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر کے قیادت کو ان سے دور کرتی رہی، دیکھنا یہ ہو گا کہ ن لیگ کی حکمت عملی کے خلاف دو ٹوک موقف اختیار کرنے والے چوہدری نثار دفاعی محاذ پر کیوں آ گئے کیا اب بھی جماعت یا اسکی لیڈر شپ میں ان کیلئے کوئی نرم گوشہ موجود ہے اور مستقبل میں چوہدری نثار اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات کا کوئی مثبت حل نکل سکتا ہے۔
جہاں تک پریس کانفرنس کے انعقاد کا سوال ہے تو اسکی تیاری چند روز سے ان ریمارکس کے حوالے سے کر رہے تھے جو ان سے منسوب کر کے بریکنگ نیوز کے طور پر چلوائے گئے تھے اور مسلم لیگ ن کے اندر چوہدری نثار مخالف گروپ نے اس پر اپنا رد عمل بھی ظاہر کر دیا تھا۔ چوہدری نثار علی خان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں وہ مشکل آدمی ضرور ہیں اور مسلم لیگ ن کے اندر رہتے ہوئے اپنے خیالات اور تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن ان سے یہ توقع رکھنا کہ مخالفت میں ذاتیات پر اتر آئیں گے یا اپنے سیاسی نظریہ سے بیوفائی کریں گے تو ایسا ممکن نہیں ہو گا اور اس وجہ سے مسلم لیگ ن سے فاصلے بن جانے کے باوجود جمعۃ الوداع کے موقع پر پارلیمنٹ کی جامعہ مسجد میں انہوں نے خصوصی طور پر بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کیلئے دعا بھی کروائی جس پر وہاں موجود لوگ حسرت کا اظہار کرتے نظر آئے۔
چوہدری نثار علی خان کی سیاست کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہر موقع پر ترجیح اپنی عزت وقار اور آن کو دیتے نظر آتے ہیں اور بعض اوقات ان کی جانب سے اختلاف کے اظہار کو جماعت کے اندر اختلاف سمجھا جاتا تھا۔ جب نواز شریف کو مشکل صورتحال میں چوہدری نثار علی خان کی زیادہ ضرورت تھی تو چوہدری نثار اپنے اصولی موقف پر اٹک گئے جس کا فائدہ جماعت کے اندر ان کی مخالف لابی نے اٹھایا اور آہستہ آہستہ لیڈر شپ خصوصاً نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان واضح فاصلے قائم کرنے میں کامیاب رہے حالانکہ خود شہباز شریف بھی اداروں سے محاذ آرائی کے بجائے مشکلات اور مقدمات سے نمٹنے کیلئے قانونی راستے اختیار کرنے کا مشورہ دیتے رہے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ نواز شریف اپنی ڈگر سے ہٹنے کیلئے تیار نہیں تو وہ اپنے تحفظات کے باوجود اپنی جماعت اور قیادت کے تابع فرماں بن گئے اور بعد ازاں اس جماعت نے انہیں مسلم لیگ ن کا صدر منتخب کر لیا۔
یقیناً نواز شریف کی چوہدری نثار سے دوری کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ چوہدری نثار علی خان سے مشکل کی اس گھڑی میں یہ توقع نہیں رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اپنے اختلافات اور تحفظات کا باب بند کر کے جماعت کے ساتھ ثابت قدم رہیں گے اور اپنا اثر و رسوخ اس قیادت کی مشکلات کے ازالہ کیلئے بروئے کار لائیں گے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکااب یکدم ان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر جماعت اور قیادت کیلئے سافٹ کارنر کا اظہار یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ آزاد الیکشن تو لڑ رہے ہیں مگر تعلقات کی چنگاری ان کے دل میں سلگ رہی ہے ان کی آج کی پریس کانفرنس پر نظر دوڑائیں تو وہ ن لیگ کے ایک پرانے رہنما دکھائی دئیے جو اختلاف تو کر رہے تھے مگر ان کے خیالات سے بغاوت جھلک نہیں رہی تھی خصوصاً اس پریس کانفرنس سے پہلے پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے ذہن میں گذشتہ روز لاہور میں (ن) لیگ کے رہنما زعیم قادری کی بغاوت بھری پریس کانفرنس ذہن میں تھی لہٰذا (ن) لیگ کے حریف یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید چوہدری نثار علی خان بھی اپنی پریس کانفرنس میں (ن) لیگ کی لیڈر شپ کے خلاف گرجیں اور برسیں گے مگر ان کے ارمانوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب چوہدری نثار یہ کہتے نظر آئے کہ بغاوت نہیں اختلاف کیا اور پارٹی کا نقصان کا تصور نہیں کرسکتا۔
چوہدری نثار علی خان کی مذکورہ پریس کانفرنس نے جہاں مخالفین کو مایوس کیا، وہاں مسلم لیگ (ن) کے حلقوں کو بھی ایک دعوت فکر دی ہے جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اختلاف اصولی ہے ذاتی نہیں اور اسے برداشت کر کے آگے بڑھ کر اپنا سفر طے کیا جائے ۔ واقفان حال تو یہ کہتے ہیں کہ باوجود چوہدری نثار کے آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں آنے کے ابھی تک ان کا جماعت کے ذمہ داران خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، رانا تنویر حسین، شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر سے رابطہ موجود ہے ہوسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے اور شریف خاندان سے 34 سالہ رفاقت کا دعویٰ کرنے والے چوہدری نثار علی خان ایک مرتبہ پھر اپنے گھر واپس لوٹ جائیں جسے خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ اس کیلئے چودھری نثار کی جانب سے ان زہریلے ٹی وی ٹکرز کی تحقیقات ضرور کروانا پڑے گی کہ یہ کس نے جاری کئے کن مقاصد کیلئے کئے اور اس پر فوری سخت ردعمل کا اظہار کر کے چوہدری نثار علی خان اور شریف برادران کے درمیان تعلقات کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی کوشش کس نے کی اور اگر جماعت یہ تحقیقات کروانے میں کامیاب ہو جائے تو بہت سارے معاملات خود بخود سلجھ جائیں گے اگر شہباز شریف قومی سیاست کے منظر نامے پر اپنا کوئی بڑا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور ن لیگ اور شریف خاندان کا پاکستان کی سیاست میں بہتر کردار چاہتے ہیں تو انہیں اپنے گھر کی خبر لیتے ہوئے پارٹی کے اندر سے بحران ختم کرنا ہوں گے ۔ چوہدری نثار کا سیاسی کردار آج بھی جماعت میں بحران پیدا کئے ہوئے ہے اور اس بحران کا خاتمہ صرف اور صرف شہباز شریف ہی کر سکتے ہیں ایک جانب وہ قوم کو بحرانوں سے نکالنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب اپنے دوست چوہدری نثار اور اپنے قائد نواز شریف کے درمیان بحران کو بڑھتا دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں۔