مظفرآباد کا تاریخی لال قلعہ حکومتی لاپرواہی کا شکار

Last Updated On 25 June,2018 07:08 pm

مظفرآباد: (دنیا نیوز) آزاد کشمیر میں معدوم ہوتے تاریخی ورثوں کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت اپنے کیے گئے دعوں اور وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہوگئی۔ مظفرآباد کے تاریخی قلعے سمیت کئی تاریخی عمارات کی مرمت رواں سال بھی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ نہ بن سکی۔

آزاد کشمیر میں تاریخی مقامات کی ابتر صورتحال کی وجہ سے سیاحوں کی تفریح کے رنگ پھیکے پڑنے لگے۔ قلعہ مظفر آباد بھی حکومتی لاپرواہی کا شکار، قومی خزانے سے کروڑوں روپے وصول کرنے والے محکمہ سیاحت نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے قلعے کو نجی سیکٹر کے حوالے کرنے کا نیا شوشہ چھوڑ دیا۔

قلعہ مظفرآباد کو چک خاندان نے 1559 میں مغلوں کے خلاف اپنے دفاع کے لیے تعمیر کیا تھا۔ دریا نیلم کے کنارے حسین مناظر پیش کرنے والا یہ قلعہ بعد میں مغل بادشاہ اکبر کے دور سے لیکر کئی صدیوں تک شاہی مہمان خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔

1846 سے ڈوگرہ دور میں یہ قلعہ 1928 تک فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا رہا۔

صدیوں کی تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے یہ قدیم تاریخی قلعہ آج حکومتی بے حسی کا شکار ہے۔ تیزی سے اپنے وجوو کھوتے اس تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے حکام کی طرف سے تاحال صرف وعدے اور دعوے ہی کیے جارہے ہیں۔

قلعے میں موجود عجائب گھر 2005 کے زلزلے میں متاثر ہوا جہاں موجود بعض نوادرات چوری کر لیے گئے جبکہ بچ جانے والا سامان ایک کمرے میں بند کسی نئی عمارت کے انتظار میں ہے۔

واضح رہے کہ محکمہ سیاحت آثار قدیمہ آزاد کشمیر 39 افسران سمیت 378 ملازمین پر مشتمل ہے، جن پر تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں سالانہ 16 کروڑ 15 لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن حکومتی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے سمیت اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہے۔