آئی ایم ایف: عمران خان کا پہلا معاشی امتحان

Last Updated On 28 July,2018 09:47 am

اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کا سرمایہ کاروں نے خیر مقدم کیا ہے تاہم سابق کرکٹر کو کرنسی بحران سے نمٹنے اوراقتصادی اتار چڑھاؤ روکنے کے لئے طویل المدت اصلاحات پر عملدرآمد کے سخت امتحان کا سامنا ہے۔ عمران خان کا پہلا بڑا اقتصادی امتحان یہ فیصلہ ہوگا کہ آیا پاکستانی کرنسی پر دباؤ ختم کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لیا جائے یا نہیں۔1980ء سے اب تک پاکستان کا یہ 12واں بیل آؤٹ پیکیج ہوگا۔

اس سے بڑھ کر مشکل امتحان زیادہ لوگوں کو ٹیکس دینے پر راضی کرنا، حکومتی خزانے کوخالی کرنے والی سبسڈیز کو ختم کرنا اورخسارے میں جانے والے ان سرکاری اداروں میں اصلاحات کرنا جنہیں سابقہ حکومتیں فروخت کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ مقامی بروکریج ہاؤس کے سربراہ سلمان مانیا کے مطابق ملک کی صورتحال ایسی ہے کہ ‘‘سٹیٹس کو’’ کو زیادہ دیر برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کیلئے زیادہ وقت نہیں ہے۔ 305 ارب ڈالر کی معیشت میں ادائیگی کے عدم توازن کوکم کرنے کے لئے پاکستان کے مرکزی بینک نے دسمبر سے اب تک کرنسی کی قیمت 4 مرتبہ (20فیصد) کم کر دی ہے۔

2013ء میں بھی ایسی صورتحال کے سبب پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6.7 ارب ڈالر قرض لیا تھا۔ 5.8 فیصد شرح نمو والی معیشت میں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ کم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ مرکزی بینک کو عالمی سطح پر آئل کی قیمتوں میں اضافے پرتشویش ہے۔ پاکستان اپنی آئل ضروریات کا 80 فیصد درآمد کرتا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر مئی 2017ء میں 16.4ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 43 فیصد اضافہ کے ساتھ 18 ارب ڈالر ہوگیا ہے جبکہ مالی خسارہ معیشت کا 6.8 فیصد ہوگیا ہے۔

عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کہا ہے کہ ‘‘ پاکستان کو اپنی تاریخ میں سب سے بڑے اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے’’۔ ہماری معیشت غیر فعال اداروں کے سبب کمزور ہورہی ہے۔ ہمیں اپنی گورننس کو بہتر کرنا ہوگا’’۔ اگرعمران خان نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو امکان ہے وہ مالی خسارہ کم کرنے کے لئے اخراجات کم کرنے کے لئے کہے گا۔ جس سے ان کے جدید سکول اور ہسپتال بنا کر غریبوں کے معیار زندگی بلند کرنے کے وعدوں کی تکمیل خطرے میں پڑ جائے گی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے پاکستان کے ٹیکس چوری کے کلچر کو ہدف بنایا۔ جنوبی ایشیا میں یہ کلچر عام ہے یعنی آبادی کا محض ایک فیصد طبقہ ٹیکس دیتا ہے ۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ معیشت اور عمران خان جنہوں نے حکومت کے پہلے 6 ماہ میں ایف بی آر کو ٹھیک کرنے کا وعدہ کیا ہے، ان کیلئے ایک بہت بڑا انقلاب ہوگا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان نے انسداد بدعنوانی مہم تیز کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ اگرچہ اس سے خطرہ ہے کہ بڑا سرمایہ ملک سے باہر چلا جائے گا ایک اور چیز جس پر پوری توجہ دی جائے گی وہ بڑے سرکاری ادارے مثلاً پی آئی اے اور توانائی کے اداروں ، جن کی نجکاری کیلئے سابقہ حکومت کوشاں تھی، میں اصلاحات کرنا ہے۔ ایک ریسرچ ہاؤس کے مطابق پاکستان کا طویل المدت تاثر کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آیا عمران خان گورننس بہتر کرسکتے ہیں یا نہیں اور آیا بااثرلوگوں کی ٹیکس چوری کا کلچر ختم کر پاتے ہیں یا نہیں کیونکہ اس سے مالی بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ‘‘ بصورت دیگرہمارے لئے حالات تقریبا یہی ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے تو سٹاک مارکیٹ میں حصص خرید لو اور آئی ایم ایف کا قرض ختم ہونے سے قبل فروخت کردو۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان کے اصلاحات کے عزائم کو اس لئے تقویت ملے گی کیونکہ کرپشن کے خلاف مؤقف کی بنا پر ان کے طاقتور فوج اور عدلیہ سے تعلقات اچھے ہیں۔ انتخابات میں ان کی توقع سے بڑھ کر کارکردگی کا مطلب ہے کہ وہ ایسی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکیں گے جو اصلاحات کے حوالے سے ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں گی۔