لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) مرکز میں تحریک انصاف کی واضح اکثریت کے باوجود تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کیلئے پنجاب میں حکومت سازی کا میدان بڑا معرکہ بن چکا ہے۔ پنجاب میں اب تک کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق بظاہر دونوں جماعتیں اپنی اپنی اکثریت کے دعوے کرتی نظر آ رہی ہیں لیکن انتخابی نتائج اور وقت کے دھارے کا جائزہ لیا جائے تو حالات حکومت سازی کیلئے تحریک انصاف کیلئے سازگار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی لیڈر شپ بنی گالہ میں پنجاب میں حکومت سازی کے معاملہ پر سر جوڑے ہوئے ہے اور فیصلہ وزارت اعلیٰ کے حوالے سے کرنا ہے کہ کسے نامزد کیا جائے ؟ کیونکہ عمران خان کی جانب سے انتخابی نتائج کے بعد کئے جانے والے پہلے باضابطہ خطاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب وہ فیصلے کسی سیاسی دباؤ کے بجائے اپنے سیاسی نظریہ پر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اپنے بعد پنجاب کے سیاسی تخت پر کسی ایسے شخص کو بٹھایا جائے جو پاکستان کی روایتی سیاست کا حصہ رہا ہو اور پی ٹی آئی کا نظریہ اسکی پہچان نہ ہو اس وقت جو سب سے بڑا مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کا ہے یقیناً وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے ایک ایسے نام کا انتخاب ہے جو پی ٹی آئی کی نئی سوچ، بدلتے پاکستان کی پہچان رکھتا ہو اور پنجاب کے روایتی سیاسی رسپیکٹ ایبل کو اپیل کرتا ہو۔
کیا عمران خان پنجاب میں حکومت سازی کے چیلنج میں کامیاب ہونگے ؟۔ کیا عمران خان اپنی جماعت کے اندر سے وزیراعلیٰ لانے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں؟۔ اتحادی انہیں بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں ہونگے ؟۔ کیا پنجاب میں دوبارہ 90 کی دہائی کی خرید و فروخت کی سیاست کا وقت شروع ہو گیا ہے ؟۔ اگر اس سے بچنا ہے تو عمران خان پنجاب پر اقتدار حاصل کیے بغیر نئے پاکستان کے نعرے کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟۔ تحریک انصاف اور عمران خان مت بھولیں کہ جس طرح خیبرپختونخوا نے پاکستان بھر میں انکے اندازِ حکمرانی کو متعارف کرایا ہے اور انتخابات کو جیتنے میں مدد کی ہے تو آئندہ الیکشن ملک بھر میں پنجاب میں تبدیلی اور نئے پاکستان کے عملی مظاہرے کے بعد ہی جیتنا ممکن ہونگے ۔ لہٰذا ملک کے بڑے صوبے میں اقتدار کا حصول اور سب سے بڑھ کر یہاں وزارت اعلیٰ کیلئے موزوں اور سیاسی بصیرت سے بھرپور شخص کو وزیراعلیٰ بنانا ناگزیر بن چکا ہے۔
پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کا حصول اور ایک مستحکم حکومت خود عمران خان کی سیاسی بصیرت اور انتظامی صلاحیتوں کا امتحان ہو گا۔ عمران کے زیر نظر رہنا چاہئے کہ جس طرح ٹکٹوں کی تقسیم میں نظریاتی سیاسی ورکرز اپنے حق سے محروم ہوئے تھے کہیں ایسا نہ ہو اس وقت بھی وہ کسی ایسے شخص کو پنجاب کے اقتدار کی چابیاں نہ تھما دیں جو پنجاب کا روایتی سیاستدان ہو اور ان کے نئے پاکستان اور تبدیلی کے نعرے کے راستے میں عملاً مزاحمت بن کر کھڑا ہو جائے۔ اگر عمران خان کسی اچھی نظریاتی اور سیاسی شخصیت کو پنجاب کیلئے چن بھی لیں تو کیا نمبرز گیم میں ن لیگ کو ہرانے کی پوزیشن میں ہیں؟ یقیناً اس وقت حالات کا دھارا اس نئی سیاسی قوت کیلئے انتہائی سازگار ہے۔ دوسرا انہیں ان کی حریف جماعت ن لیگ کی ’’باڈی لینگوئج‘‘ بھی بھرپور سپورٹ کر رہی ہے کیونکہ ن لیگ کا یہ اشارہ کہ شہباز شریف وفاق کا رخ کرینگے بہت کچھ پیغام دے رہا ہے۔
رائے عامہ سے زیادہ یہ پیغام ان آزاد جیتنے والے اراکین پنجاب اسمبلی، ق لیگی اراکین اور پیپلز پارٹی کے لیے ہو گا کہ اپنے سیاسی مستقبل کیلئے یکطرفہ فیصلہ کرلیں۔ ایک طرف حمزہ شہباز حکومت سازی کے اپنے حق کو باور کرا رہے ہیں دوسری طرف شہباز شریف اہم ترین حکومتی یونٹ کو چھوڑ کر وفاق میں جا رہے ہیں تو ایک واضح پیغام ہے کہ کس ذہنیت سے ن لیگ تحریک انصاف کو حکومت سازی کا مبہم پیغام دے رہی ہے ۔ لہٰذا یہ صورتحال عمران خان کی جماعت اور قیادت کیلئے سازگار ہے کہ وہ پنجاب میں قدم بڑھائیں اور خلا کو پُر کریں۔ اگر پنجاب میں ن لیگ اور تحریک انصاف میں حکومت سازی پر ٹھن گئی تو حالات ایک بار پھر نوے کی دہائی کے وسط کی طرف جا سکتے ہیں ۔ پھر چھانگا مانگا سیاست کا دور دورہ ہوگا۔ گھوڑوں کی خرید و فروخت ہو گی اور اس منظر نامے میں نیا پاکستان اور تبدیلی کا خواب محض سراب بن جائیگا کیونکہ ماضی میں پنجاب کے اندر ایسی ایسی حکومتیں اقتدار میں رہیں جن کو اپنے اقتدار کیلئے بیساکھیوں کی ضرورت رہی اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جب آپکی حکومت کو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اور آپکا نظریہ اور ترجیحات آپ سے کچھ اور تقاضا کر رہے ہوتے ہیں جبکہ صورتحال کچھ اور مانگ رہی ہوتی ہے۔ دراصل اسی روایتی سیاست کے خلاف ردعمل ہی عمران خان کو سیاست میں لایا تھا اور ان کے نظریے کی بنیاد بنا تھا۔ اب قوم کی نگاہیں عمران خان پر ہیں کہ وہ اقتدار کی خاطر اپنے نظریہ کو گروی تو نہیں رکھ چھوڑیں گے ؟ ۔