لاہور: ( ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ) امریکی وزیر خارجہ کا بیان اپنی جگہ مگر امریکہ اس وقت چاہتا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ مل جائے۔ آئی ایم ایف کے اکثریتی حصص یورپی یونین اور امریکہ کے پاس ہیں۔ آئی ایم ایف کی جو بھی پالیسیاں ہوتی ہیں ان میں امریکہ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اسی لئے امریکہ کی طرف سے آئی ایم ایف کو کہا جار ہا ہے کہ آپ ان پر سخت شرائط لاگو کریں۔
2008 میں جو آئی ایم ایف نے ہمیں قرضہ دیا تھا، امریکہ نے تحریری طور پر اس کی سفارش کی تھی کہ آپ پاکستان کو قرضہ دیں، اس کی دستاویز موجود ہے۔ 2013 میں اسحاق ڈار نے خود کہا تھا کہ ہم امریکہ سے سفارش کرا کر قرضہ لیں گے، 2008 کا قرضہ لینے کے بعد پاکستان نے سوات آپریشن کیا، جنوبی وزیرستان آپریشن بھی کیا، 2013 کے بعد بھی ہم نے آپریشن کیا، اب کچھ تحفظات ظاہر کر رہے تھے تو انہوں نے یہ ہم پر حربہ استعمال کیا ہے کہ ان پر یہ شرائط لگائیں اب آئی ایم ایف ایسی شرطیں لگائے گا کہ جس کے نتیجے میں ہماری شرح نمو سست ہو گی، مہنگائی بڑھے گی، روزگار کے مواقع کم آئیں گے اور روپے کی قدر گرے گی اور وہ کہیں گے کہ بجلی اور پٹرول کے نرخ بھی بڑھائیں، جس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک طوفان آئے گا۔
ہم نے خود ایک ایسی حرکت کی جس کی وجہ سے ہم امریکہ کے چنگل میں پھنس گئے، اب اس کا تاریخ فیصلہ کرے گی یا عوام اور میڈیا ،وہ حرکت یہ تھی کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اور دوسرے جتنے ادارے تھے، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے لوگ پیسے لے کربیرون ملک چلے گئے تھے، اب وہ واپس لانے کیلئے بے چین ہیں کیونکہ وہ ناجائز دولت ہے۔ یعنی باہر سے لوٹا ہوا پیسہ آئے گا تو تعلیم اور صحت پر لگے گا اور قرضے اتاریں گے، لیکن جب ایمنسٹی سکیم آئی تواس میں خاموشی سے یہ شق ڈال دی کہ آپ پیسہ نہ لانا چاہیں تو نہ لائیں اور مطالبہ کیا کہ 5 فیصد ٹیکس ادا کر دیں تو ٹھیک ہے، ہمیں تو ڈالر چاہیے تھا، اگر ہم یہ شرط رکھتے کہ آپ اس پیسے کو ملک میں لائیں تو آج ہماری ایسی بری حالت نہ ہوتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو قانون سازی کی گئی ہے، اس کے تحت ہوتا یہ ہے کہ لوگ کھلی مارکیٹ سے ڈالر خریدتے ہیں، اس کو اپنے کھاتے میں جمع کراتے ہیں اور وہ پیسہ قانون کے تحت باہر چلا جاتا ہے، ڈیڑھ سال میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 15 ارب ڈالر باہر منتقل ہوئے جبکہ ہم عالمی ادارے سے 2 ارب ڈالر کے لئے گھٹنے کے بل جاتے ہیں دوسری جانب ملک میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ کھلی مارکیٹ سے ڈالر خرید کر باہر بھیج دیں، اگر یہ قانون بنا دیا جائے کہ کسی کو تعلیم یا علاج معالجے کے لئے ڈالر چاہئیں تو لے جائے، اس کے علاوہ ڈالر باہر بھیجنے کی اجازت نہیں ہوگی تو کم سے کم ہمارے 13 ارب ڈالر بچ جاتے اور یہ بحران پیدا نہ ہوتا اور ہمارے ذخائر 13 ارب ڈالر زیادہ ہوتے۔ وہ قانون آج بھی تبدیل نہیں ہوا اور چل رہا ہے اور باہر سے بھی ہم نے پیسہ نہیں لیا۔ ہم نے تو امریکہ کے جو مقاصد تھے ان کو قانون سازی اور اقدامات سے ممکن بنایا اور نگران حکومت نے بھی یہی کیا، سکیم میں توسیع کر دی لیکن یہ نہیں کہا کہ پیسہ پاکستان لائیں ورنہ یہ توسیع ان پر لاگو نہیں ہوگی ،اب لوٹی ہوئی دولت واپس جانے کی بات کررہے ہیں تو آپ نے اس پر انہیں ایمنسٹی دے دی اور ان کو وہاں تحفظ مل گیا،دنیا کا پریشر بھی ختم ہو گیا لہذا ہم اس بحران کے خود ذمہ دار ہیں۔
ایف بی آر نے دو ہفتے قبل اشتہارات دئیے تھے کہ جس دن ٹیکس ایمنسٹی سکیم ختم ہو گی ،اس کے اگلے دن ملک میں جو ناجائز دولت ہے، اس پر قانون کے مطابق ٹیکس لینا شروع کر دینگے، جس کے لئے قانون موجود ہے اور اس کے لئے ہمیں کسی کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ تحریک انصاف کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہم لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر تعلیم اور صحت پر لگائیں گے اب جبکہ یہ ایمنسٹی سکیم ناکامی کیساتھ ختم ہوگئی۔ 125 ارب اگر ٹیکس ملا تو گزشتہ سال اگست میں اڑھائی سو ارب کا شارٹ فال تھا۔ اس کے باوجود اب بھی اگر ہم پہلی تاریخ سے جو ناجائز اثاثے ملک کے اندر ہیں، ان پر ٹیکس لے لیں تو اس سے ہم دو ڈیم بنا سکتے ہیں اور بجلی، پٹرول کے نرخ بھی کم کر سکتے ہیں اور اس سے روپے کی قدر بھی مضبوط ہو جائیگی۔ دیکھنا اب صرف یہ ہے کہ نئی حکومت اس حوالے سے ایکشن لیتی ہے یا نہیں، یا نگران حکومت ہی آج سے پہلے سے موجود قانون کو بروئے کار لا کر یہ شروع کر دیتی ہے تو 1500 ارب روپے حکومت کے پاس آجائینگے جس سے مسائل حل ہو جائینگے۔ ان تین مشوروں پر فوری عمل کیا جا سکتا ہے جس سے ہم آئی ایم ایف کے چنگل میں جانے سے بھی بچ جائینگے اور امریکہ کی بلیک میلنگ سے بھی اور مہنگائی ، بے روز گاری میں بھی کمی ہو گی اور قوم کی عزت نفس بھی بحال رہے گی۔