اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) پاکستان کی آنے والی حکومت کو خارجہ محاذ پر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا خاص طور پر ایسے وقت میں جب افغانستان سے امریکہ اور بھارت کے انخلا کے آثار پیدا ہو رہے ہیں اور بھارت آئندہ سال انتخابات کی طرف جارہا ہے، وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چین نے جو خود کو پاکستان کا ''آہنی بھائی'' قرار دیتا ہے سی پیک منصوبوں پر عملدرآمد کو ایک پالیسی کے تحت فی الوقت ''سلو'' کر دیا ہے۔
اگرچہ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ جو خطہ میں سلامتی کی صورتحال سے براہ راست منسلک ہے اور دفتر خارجہ حالات سے مکمل طور پر باخبر ہیں لیکن مرکزی حکومت نے ہی بہر حال خارجہ پالیسی تشکیل دینی اور چلانی ہے۔ ایران پر مزید امریکی پابندیاں، تعلقات میں توازن اور گیس پائپ لائن کے چیلنج بھی درپیش ہوں گے۔ خطہ میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کے پیش نظر سرعت سے حکومت سازی کا عمل مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی مفادات کے تحفظ کیلئے مستحکم حکومت موجود ہو۔
بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی اور بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کے مستقبل کے حوالے سے بھی اہم فیصلے اٹھائے جانے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مسلسل گراوٹ کی طرف آ رہے ہیں اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں امریکہ نے پاکستان کیلئے سکیورٹی امداد کی مد میں صرف پندرہ کروڑ روپے رکھے ہیں اور کولیشن سپورٹ فنڈ کے بقایا جات کی ادائیگی سے انکار کردیا ہے۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقوم کے حصول کے اہم چیلنج کے ساتھ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی اور حوالگی کے امریکی مطالبہ پر بھی اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ پاکستان تحریک انصاف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے کے حوالے سے بارہا کہہ چکی ہے ، اس حوالے سے بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا۔ روس کے ساتھ بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کی رفتار کو جاری رکھنا ہوگا۔ ایران پر مزید امریکی پابندیاں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔