لاہور: (بلوم برگ) پاکستان کی معیشت کو چلانے والا انسان خطرات مول لینے سے نہیں ڈرتا جب ملک کے نئے وزیر خزانہ اسد عمر کو دو دہائی قبل یہ بتایا گیا کہ وہ کراچی پورٹ کے ذریعے سٹوریج ٹرمینل کا کمزور حفاظتی معیار ہونے کی وجہ سے کیمیکل درآمد نہیں کر سکتے تو انہوں نے اپنا نیا ٹرمینل تعمیر کرلیا۔ اس وقت وہ ایک نجی ادارے میں سینئر عہدیدار تھے اور جہاں وہ ترقی کرتے چیف ایگزیکٹو آفیسر بنے اور کمپنی کو صرف کھاد تیار کرنے سے بڑھا کر ملک کے ایک بڑے گروپ میں تبدیل کر دیا۔ شمس الدین شیخ جو اس کمپنی کے توانائی شعبے کے سربراہ ہیں اور انہوں نے اسد عمر کیلئے تقریباَ 18سال کام کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سٹوریج یونٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے سابق سربراہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کیسے غیر روایتی راستے تلاش کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ وہ مسئلے کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور تفصیلات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور یہی خوبی 57 سالہ اسد عمر کو اس کام کیلئے اہل بناتی ہے۔
اسد عمر کو اپنی نئی ذمہ داری کے تحت مسائل کی کمی نہیں جن کو حل کرنا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ بہت زیادہ قرضے حاصل کر لینے کی وجہ سے جنوبی ایشیائی قوم کو 12 ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کار امید کرتے ہیں کہ سابق کرکٹ لیجنڈ اور نئے وزیراعظم عمران خان جلد ہی ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ سال ایک تہائی کم ہو کر 9.9 ارب ڈالر رہ گئے جبکہ قوم کو دوطرفہ خسارے کا سامنا ہے یعنی مجموعی ملکی پیداوار کے 5 فیصد سے زیادہ کرنٹ اکائونٹ اور بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ حکام نے دسمبر سے لے کر ابتک 4 دفعہ روپے کی قدر میں کمی کی ہے۔
اسد عمر نے رسمی تقرری سے کچھ عرصہ قبل اگست میں اسلام آباد میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے اس کو آئندہ چند ہفتوں میں کرنا چاہیے جبکہ ان کو 6 ماہ قبل یہ سب کرلینا چاہیے تھا۔ فوری بحران سے ماورا، اسد عمر دہائیوں پر محیط معاشی اتار چڑھائو، قرضوں پر بہت زیادہ انحصار اور انکم ٹیکس دینے سے اجتناب جیسے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کریں کہ 20 کروڑ سے زیادہ آبادی کے ملک میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ دبئی میں مقیم ڈیلٹا پارٹنرز کنسلٹنسی کے چیف فنانشل آفیسر آصف خان نے کہا حکومت کو ایک تنی رسی پر چلنا ہوگا کہ اس کا ترقیاتی اور فلاحی اخراجات میں اضافہ کرنے کا منصوبہ ہے کیونکہ یہ سب کچھ مانیٹری اور مالی پالیسی کو مزید سخت کر کے معاشی خطرات کو کم کرنے کے تقاضے سے متصادم ہے۔
اسد عمر رسک لینے سے نہیں گھبراتے وزیرخزانہ کا تعلق ایک فوجی خاندان سے ہے، 1971 کی جنگ کے دوران ان کے والد جنرل تھے، جبری ریٹائرمنٹ کے بعد خاندان راولپنڈی گیریژن سے کراچی منتقل ہو گیا جہاں اسد عمر نے ایک سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کی۔ 7 بچوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی بنا پر انہوں نے اپنے بھائی منیر کمال کے ساتھ کمرہ شیئر کیا جو نیشنل بینک آف پاکستان کے چیئرمین بنے اور محمد زبیر سابق گورنر سندھ ہیں، 62 سالہ محمد زبیر یاد کرتے ہیں کہ ان کے چھوٹے بھائی امتحان کے لئے پڑھنے سے زیادہ کرکٹ اور بیڈ منٹن کھیلنے میں دلچسپی لیتے تھے اس کے باوجود وہ دوسرے اچھے طالبعلموں کی طرح اچھے گریڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ آج دونوں بھائی سیاسی طور پر الگ ہیں، اسد عمر نے اینگرو چھوڑ دی اور عمران خان کی جانب سے متعدد بار ان کو پارٹی میں شامل کرنے کی کوششوں کے بعد 2012 میں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے جبکہ محمد زبیر اسی سال سابق وزیراعظم نواز شریف کی پارٹی میں شامل ہوگئے اور ان کی حکومت میں وزیر بنے۔ دونوں بھائی عوامی سطح پر اکثر اختلاف کرتے ہیں تاہم یہ اختلاف آرا تک رہتا ہے۔
نئی حکومت کے پاس ممکنہ طور پر مشکل معاشی اصلاحات کرنے سے قبل تھوڑا سا ہنی مون پیریڈ ہے، ایک پرائیویٹ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر عمر یوسف جو اسد عمر کو کارپوریٹ کا حصہ ہونے کے دنوں سے جانتے ہیں نے کہا یہ بہت مشکل کام ہونے جا رہا ہے تاہم انہوں نے ایک اچھی ٹیم بنائی ہے اور اسد عمر ان تمام میں سے سب سے زیادہ قابل اور ذہین ہیں جن کو میں جانتا ہوں اس لئے میں پرامید ہوں۔