لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) اقتصادی بحران منتخب حکومت کیلئے بڑے بحران کے طور پر سامنے آیا اور توقع یہی ظاہر کی جا رہی تھی کہ عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت بڑے فیصلوں کے ذریعے بحران کے خاتمہ کے ساتھ ملکی معیشت کی بحالی کے بعد اسے ترقی کی پٹڑی پر ڈال سکے گی لیکن ابھی تک محسوس ہو رہا ہے کہ جس طرح اسے ٹیک آف کرنا چاہئے تھا نہیں کر پا رہی اور معاشی بحران سمیت دیگر سلگتے مسائل کی ذمہ داری ماضی کی حکومت پر ڈال کر سرخرو ہونا چاہتی ہے۔ لیکن وقتی طور پر تو یہ کام چل سکتا ہے مگر مستقل بنیادوں پر نہیں، جس کیلئے بالآخر حکومت کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کہنا تھا کہ اسحاق ڈار معاشی بد حالی کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ ن لیگ کی حکومت نے اربوں کے قرضے لیکر اپنے کنبے کیلئے کھلونے بنائے۔ البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ خود ان کی حکومت نے اس بحرانی کیفیت سے نجات کیلئے اب تک کیا کیا اور یہی وہ بنیادی سوال ہے کہ کیا حکومت ملک کو در پیش معاشی بحران سے نمٹ سکے گی۔ اگر حقائق کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو قومی بد قسمتی اور بڑا سیاسی المیہ یہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت کو اسی طرح کے حالات در پیش ہوتے ہیں، جیسے تحریک انصاف کی حکومت کو ہیں۔
مسلم لیگ ن نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت بھی ملک ڈیفالٹ کے قریب تر تھا۔ لیکن اس وقت کی حکومت نے حالات کا رونا رونے کے بجائے بہت حد تک صورتحال کو سنبھالا دیا خصوصاً لوڈ شیڈنگ کے بحران سے نجات کیلئے پراجیکٹس لگائے، خود تحریک انصاف کی حکومت کو بہت پہلے سے یہ پتہ تھا کہ صورتحال کیا ہے، مگر انہوں نے اس سے نمٹنے کیلئے جو تیاری کرنی تھی وہ نظر نہیں آ رہی ۔ وزیر خزانہ اسد عمر سے جو توقعات قائم کی جا رہی تھیں وہ بھی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت الزام تراشی کرنے اور معیشت کے دیوالیہ پن کا بوجھ ن لیگ پر ڈالنے کی بجائے اب آگے کی طرف چلے۔
معیشت کی بحالی اور پھر اس کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ان کا بڑا امتحان ہے اور انہیں امتحان میں کامیابی کیلئے تگ و دو کرنی چاہئے۔ موجودہ حکومت سے اچھی توقعات کا حامل باشعور طبقہ بھی یہ کہتا نظر آرہا ہے کہ حکومت کو کامیاب ہونا چاہئے کیونکہ یہ ملک کی بقا و استحکام کیلئے ضروری ہے ان کے خیال میں عمران خان کی حکومت سے ہونے والی مایوسی دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ ہوگی۔ اگر حکومت نے اپنی غلط اور کمزور منصوبہ بندی کا دفاع گزشتہ حکومت پر الزامات میں ڈھونڈا تو پھر سیاسی بحران اس کا منتظر رہے گا اور معاشی استحکام کا خواب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔