لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کے اہم رہنما جہانگیر ترین کی نا اہلی کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ان کی تاحیات نا اہلی کا فیصلہ برقرار رکھا اور اس طرح سے تحریک انصاف کی سیاست میں عمران خان کے بعد اہم ترین جہانگیر ترین کا کردار پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں ختم سمجھا جا رہا ہے۔ کیا سیاسی محاذ پر بھی ان کی اہمیت کم ہوگی، خود تحریک انصاف کی حکومت اور جماعت پر اسکے اثرات کیا ہوں گے اور عدالتی نا اہلی کے بعد ان کا پس پردہ کردار تو متاثر نہیں ہوگا۔
جہاں تک جہانگیر ترین کے خلاف تاحیات نا اہلی کے فیصلہ کو برقرار رکھے جانے کا تعلق ہے تو یہ ان کیلئے بڑے سیاسی جھٹکے سے کم نہیں سمجھا جا رہا۔ حکومتی و جماعتی اعلیٰ سطح کے حلقوں میں ستمبر میں عدالتی نا اہلی کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ کے حوالے سے بہت سی توقعات قائم کی جا رہی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ حکومت اور جماعت میں جہانگیر ترین ہی اہم ترین تھے کیونکہ یہ جہانگیر ترین ہی تھے جنہوں نے پنجاب کے انتخابی نتائج میں مسلم لیگ ن کی اکثریت کے باوجود خود اور اپنے گھوڑے ’’جہاز‘‘ کو بروئے کار لاتے ہوئے آزاد حیثیت میں جیتنے والوں کو بنی گالہ لا کھڑا کیا اور تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت کیلئے مطلوبہ اکثریت فراہم کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے حوالے سے عام رائے یہی تھی کہ پنجاب میں ایک کمزور وزیراعلیٰ کو میدان میں اتارنے کا مقصد ہی آنے والے وقت میں انہیں پیچھے کر کے کسی اہم ترین کو آگے لانا ہے، اور اس بات نے جہانگیر ترین کی حیثیت اور اہمیت قائم رکھی۔ جہانگیر ترین نے تحریک انصاف کی سیاست میں ہر حوالے سے موثر کردار ادا کیا۔ اپنی ذاتی حیثیت میں ، مالی حیثیت میں اور خود عمران خان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے اور ایسا چلے کہ انہیں عمران خان کا متبادل سمجھا جانے لگا اور توقع یہی تھی اور شنید یہی ظاہر کی جا رہی تھی کہ ستمبر میں جہانگیر ترین کے حوالے سے حکومت اور جماعت کو اچھی خبر ملے گی۔
بہر حال عدالت نے ان کی نا اہلی کے حوالے سے فیصلہ پر آنے والی نظر ثانی کی درخواست سماعت کر کے جہانگیر ترین پر پارلیمانی سیاست کے دروازے بند کئے ہیں۔ اس سے ان کی سیاست کو دھچکا تو ضرور لگا ہے مگر سیاسی محاذ پر ان کا کردار رہے گا۔ خود عمران خان ان کی اہمیت و حیثیت سے واقف ہیں وہ ہر اعلیٰ سطح کے اجلاس اور فیصلوں میں محسوس کئے جائیں گے ۔ لیکن ان کی پارلیمانی سیاست کا خاتمہ جماعت سے باہر تو اثرات کا حامل نہیں ہوگا البتہ تحریک انصاف کے اندر ضرور اس کے اثرات ہوں گے۔ اب پنجاب کے محاذ پر اس کا فائدہ سینئر وزیر علیم خان کو ملے گا کیونکہ اس سے قبل پنجاب کے ’’سیاسی مورچہ‘‘کیلئے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کا نام لیا جاتا تھا، اور جماعتی گروپنگ میں بھی علیم خان کو جہانگیر ترین کے ساتھ ہی منسلک کیا جاتا رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں حکومت سازی کے عمل میں انتخابی نتائج کے بعد بڑا کردار جہانگیر ترین کا ہی سامنے آیا اور اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد سے معاملات انہوں نے ہی طے کئے ۔ جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار، جہانگیر کی دریافت تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پتہ یہی چل رہا ہے کہ عثمان بزدار براستہ جہانگیر ترین نہیں بلکہ براہ راست بنی گالہ بلائے گئے تھے۔ پنجاب کی پگ ان کے سر پر سجا دی گئی۔ یہ افسر اعلیٰ سطح کے سیاسی حلقوں میں معمہ تھا اور رہے گا کہ عثمان بزدار کہاں سے آئے اور سب سے آخر میں آنے والے کو سب پر ترجیح کیوں دے ڈالی گئی۔ بہر حال ان کی ذہنی صلاحیتوں، سیاسی قد کاٹھ کا اندازہ لگانے اور ان کے سیاسی ویژن کا ادراک کرنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان کے پیچھے اور کچھ نہیں ہے تو پھر یہ واقعتاان پر خدا تعالیٰ کا فضل و کرم ہے یا کسی پیر فقیر کی دعا ضرور ہے جو انہیں یہاں تک لے آئی۔
جہاں تک جہانگیر ترین کے مستقبل کا سوال ہے تو وہ جماعت اور حکومت میں اہم ترین تو رہیں گے لیکن ان کے چہرے کی مسکراہٹ کے پیچھے یہ دکھ اور افسوس تو رہے گا کہ اتنی محنت اور کاوش کے بعد وہ جس پارٹی کو مسند اقتدار تک لے گئے۔ خود اس حکومت کیلئے نا اہل بن گئے ۔ اس امر پر دو آراء نہیں کہ وہ ایک اچھے اور موثر کاروباری شخص بھی ہیں۔ صنعت و تجارت اور زراعت میں ان کی کامیابیاں ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ ماضی میں پختونخوا کی حکومت بننے کے بعد ان کا وہاں بھی اثر و رسوخ نظر آیا اور اب پورے ملک کی حکومت ملنے کے بعد اس براہ راست حکومت میں تو کوئی مقام نہیں مل سکا، لگتا ہے کہ اب بھی ان کا کردار پس پردہ ہی ہوگا، لیکن حکومتی پالیسیوں خصوصاً زراعت، صنعت اور تجارتی پالیسیوں میں انہیں دیکھا اور سمجھا جا سکے گا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جماعت اور قیادت کسی شخص کی قربانیوں اور جدوجہد کے باوجود اسے کتنی بھی حیثیت اور اہمیت دے لیکن اسکے لاشعور میں موجود نا اہلی کا داغ اسے ہر محاذ پر اسکا احساس ضرور دلاتا رہے گا اور یہ احساس اور داغ وہ اعتماد پیدا نہیں ہونے دیتا جو ایک سیاستدان اس کے طرز عمل اس کے فیصلہ سازی کی اہلیت سے ظاہر ہوتا نظر آتا ہے۔ بہر حال اس فیصلے سے ایک اہم پہلو تحریک انصاف کی حکومت اور سیاست میں متاثر ہوگا وہ ہے جنوبی پنجاب کی سیاست اور حکومت میں بڑے سیاسی گھرانوں کی موجودگی۔
جہانگیر ترین اس فیصلے کے بعد اگر کمزور پڑ گئے اور واقعتا انہوں نے اپنی ذات، خاندان اور اپنے کاروبار کو وقت دینا شروع کر دیا اور الگ تھلگ ہو گئے تو پھر حکومت کیلئے خصوصاً پنجاب کے محاذ پر سخت دھچکا پہنچے گا۔ جنوبی پنجاب کی سیاست میں انہیں عمران خان نے ہر معاملہ میں مختار کل بنا رکھا تھا، بہت سے سیاسی خاندانوں کے ساتھ عوامی سطح پر وعدے اور سیاسی پلانز تھے، خصوصاً جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے حوالے سے ہوگا، لازمی طور پر یہ معاملات بہت سی الجھنوں کا شکار ہو جائینگے۔ جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کا بہت سخت مقابلہ رہا ہے تحریک انصاف میں شمولیتوں اور ٹکٹوں کے حوالے سے اور پارٹی میں شامل بہت سے گھرانے شاہ محمود کے فیصلوں اور ترجیحات کا شکار ہونگے ۔ جہانگیر ترین کی ذاتی سیاست کے اس بحران میں اگر عمران خان نے ان کی پارٹی اور سیاست میں سرمایہ کاری کو مد نظر رکھا تو جہانگیر ہر سطح اور ہر زاویے سے پارٹی اور حکومتی معاملات میں فیصلہ کن اہمیت کے حامل رہیں گے اور شاید انہوں نے ہمت کا دامن نہ چھوڑا تو آنے والے کسی وقت میں کوئی عدالتی فیصلہ شاید ان کیلئے امکانات کا دروازہ کھول دے۔