اسلام آباد: ( روزنامہ دنیا) سابق سینیٹرسیف الرحمن کی ریڈ کو ٹیکسٹائل ملز سے کروڑوں روپے کی 21 مہنگی گاڑیاں برآمد ہونے کے بعد تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں، قطری سفارتخانے کی آڑ میں 330 مہنگی گاڑیاں درآمد کی گئیں جس سے قومی خزانے کو ساڑھے 4 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ڈی جی کسٹمز انٹیلی جنس شوکت علی نے سیف الرحمن کی ٹیکسٹائل ملز سے 21 مہنگی گاڑیاں برآمد ہونے کے بعد چیئرمین ایف بی آر کو ایک رپورٹ بھجوائی جس میں انکشاف کیا گیا کہ 2012 سے اب تک قطری خاندان کے سفارتی استثنیٰ کی آڑ میں کسٹمز اور وزارت خارجہ کے افسروں کی ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر گاڑیاں منگوائی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں گاڑیوں کی درآمد کیلئے پاکستان کسٹمز ٹیرف رولز 9902 اور 9905 کا جائزہ لیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ قطری سفارتخانے کی طرف سے رولز 9902 کے تحت منگوائی جانے والی 14 گاڑیاں قانونی تقاضے پورے کرتی ہیں، اس رولز کے تحت صرف پاکستان میں تعینات سفارت کار ہی اپنے استعمال کیلئے گاڑیاں منگواسکتے ہیں جبکہ پاکستان کسٹمز ٹیرف قوانین 9905 کے تحت منگوائی جانے والی گاڑیاں شکار کیلئے استعمال ہوتی ہیں اور مخصوص مدت کے بعد ان گاڑیوں کو واپس لے جانا لازمی ہوتا ہے جبکہ اس کیس میں دونوں رولز کی خلاف ورزی کی گئی ، پاکستانی دفتر خارجہ کے افسروں نے نہ صرف قطری سفارتخانے اور شاہی خاندان کو گمراہ کن اور غیرقانونی طور پر استثنیٰ کے سرٹیفکیٹ جاری کئے بلکہ پاکستان کسٹمز ہاؤس کراچی میں تعینات افسروں نے ان غیر قانونی طور پر درآمد کی گئی گاڑیوں کو اجازت دی۔
کسٹمز انٹیلی جنس کے مطابق سابق قطری وزیراعظم حماد بن جاسم، ان کے بیٹے اور پوتے کے نام پرغیر قانونی طور پر منگوائی گئی گاڑیوں کی مالیت 7 ارب روپے ہے، ڈی جی کسٹمز انٹیلی جنس کی طرف سے چیئرمین ایف بی آر کو بھجوائی گئی رپورٹ کے مطابق 330 گاڑیوں میں سے 50 واپس قطر بھیج دی گئی ہیں جبکہ 280 اب بھی پاکستان میں ہی ہیں، رپورٹ کے مطابق 280 گاڑیوں میں سے 233 قطری شاہی خاندان کی ہیں جن میں سے 61 گاڑیاں سابق قطری وزیراعظم شیخ حماد بن جاسم جبر الثانی، 34 گاڑیاں شیخ تمیم بن حماد الثانی، 24 گاڑیاں شیخ فیصل بن نصیر بن حماد الثانی، 99 گاڑیاں شیخ فلاح بن جاسم الثانی، 11گاڑیاں شیخ عبدالرحمن بن جاسم الثانی ، 3 گاڑیاں شیخ عبداللہ بن جاسم بن فہد الثانی، ایک گاڑی شیخ فیصل بن جاسم بن فیصل الثانی، 21 گاڑیاں شیخ عبداللہ خالد الثانی ، 9 گاڑیاں شیخ علی بن عبداللہ بن ثانی بن الثانی ، 13 گاڑیاں شیخ محمد بن خلیفہ الثانی ، 3 گاڑیاں شیخ فیصل قاسم الثانی اورایک گاڑی ثقر بن مبارک المنصوری کے نام پر غیرقانونی طور پر درآمد کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق قطری شاہی خاندان کے یہ افراد کبھی بھی اسلام آباد میں سفارت کار نہیں رہے، وزارت خارجہ کے افسروں نے ان کے نام پر سفارتی استثنیٰ کے سرٹیفکیٹ جاری کئے، ڈی جی کسٹمز انٹیلی جنس نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں کہ کیسے قطری خاندان کوسرٹیفکیٹ جاری کئے گئے اور پاکستان کسٹمز ہاؤس کراچی کے افسروں نے غیر قانونی استثنیٰ کے سرٹیفکیٹ کو کیوں قانونی تسلیم کیا ؟ اور ان کی موجودگی کے بارے میں کوئی پتا نہیں، جن کو بر آمد کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر آپریشن کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق 280 گاڑیو ں کا اب تک کوئی پتا نہیں چل سکا جس کیلئے بڑے پیمانے پر آپریشن کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، کسٹمز انٹیلی جنس نے اعلٰی حکام سے وزارت خارجہ اور پاکستان کسٹمز ہاؤس کراچی کے افسروں اور دیگر کیخلا ف کارروائی کی اجازت مانگ لی ، رپورٹ میں سیف الرحمن کے دو ملازمین کے تحریری بیان بھی شامل ہیں ،عارف شہید خان کا حال ہی میں ایم ڈی ریڈکو انٹرنیشنل دوحہ سے پاکستان تبادلہ کیا گیا ، انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ پکڑی جانے والی گاڑیاں سیف الرحمن اور ان کے خاندان کے استعمال میں تھیں، انہوں نے کبھی قطری شیخ یا ان کے ملازمین کو ان گاڑیوں کو استعمال کرتے نہیں دیکھا، ایک اور ملازم عرفان احمد صدیقی جو منیجر کے عہدے پر تعینات ہیں ، انہوں نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ یہ گاڑیاں سیف الرحمن خاندان کے زیر استعمال رہیں جبکہ اسلام آباد پولیس نے بنی گالہ کے علاقے میں ریڈکو کے ویئر ہاؤس کے قریب بغیر نمبر پلیٹ مزید 6 مہنگی گاڑیاں برآمد کرلیں جن کو کسٹمز انٹیلی جنس حکام نے اپنی تحویل میں لے لیا، کسٹمزانٹیلی جنس حکام کے مطابق ان میں سے 2 گاڑیاں وہی ہیں جن کا ذکر قطری سفارتخانے میں بھی ہوا جبکہ باقی 4 گاڑیوں کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔