سزائے موت کے مجرم کو پھانسی صبح کے وقت ہی کیوں دی جاتی ہے؟

Last Updated On 17 October,2018 06:02 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان، افغانستان، بھارت اور ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت، پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس کا پورا طریق کار (کوڈ) موجود ہے، جس کے مطابق پھانسی کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔ جب سے انسان کی تاریخ موجود ہے سزائے موت کا وجود ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ قتل، جاسوسی اور غداری وہ قدیم ترین جرائم ہیں جن پر سزائے موت دی جاتی تھی۔

سنگین مقدمات میں سزایافتہ مجرم کےلیے سب سے سخت موت کی سزا ہوتی ہے۔ مختلف ممالک میں سزائے موت دینے کے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں۔کچھ ممالک میں مجرم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کچھ ممالک میں بجلی کی کرسی پر بٹھاکر اورکہیں زہر کا انجکشن لگا کر سزائے موت دی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں سزائے موت کے مجرم کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے اور اسے علی الصبح پھانسی دی جاتی ہے۔صبح کے وقت پھانسی دینے کی چند وجوہ ہیں۔

1: پھانسی پر عملدرآمد، جیل حکام کےلیے اس دن کا سب سے اہم کام ہوتا ہے لہٰذا وہ صبح سویرے ہی اس کام کو اس لیے انجام دیتے ہیں کہ پھانسی کی وجہ سے جیل کے دیگر روزمرہ معمولات متاثر نہ ہوں۔ پھانسی دینے کے بعد وہاں موجود میڈیکل ایگزامنر، مجرم کی موت کی تصدیق کرتاہے اور پھر لاش فوراً ورثا کے حوالے کردی جاتی ہے۔

2: مجرم کو صبح کے وقت پھانسی دینے کا ایک اخلاقی جواز یہ ہے کہ مجرم کو دن بھر پھانسی کے انتظار کی اذیت سے نہ گزرنا پڑے ورنہ اس کی ذہنی حالت پر اس کا برا اثر ہوسکتا ہے، لہٰذا مجرم کو رات کے وقت آرام کرنے دیا جاتا ہے اور پھانسی کے وقت سے چند گھنٹے قبل اٹھا کر غسل کروایا جاتا ہے جس کے بعد وہ چاہے تو عبادت کرسکتا ہے۔ پھر اسے پھانسی گھاٹ پر لے جایا جاتاہے اور پھانسی دے دی جاتی ہے۔ اس وقت پھانسی گھاٹ پر ایک ڈاکٹر، جیل حکام اور مجسٹریٹ موجود ہوتے ہیں۔ مقدمے کا مدعی اگر چاہے تو مجرم کی پھانسی کا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔

3:صبح کے وقت انسان کے اعضا تروتازہ ہوتے ہیں جس سے پھانسی کے وقت تکلیف کم ہوتی ہے جب کہ دن کے وقت اعضا سخت ہوتے ہیں اور مجرم کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اسی لیے پھانسی دینے کےلیے صبح کے وقت کو ترجیح دی جاتی ہے۔

4:پھانسی علی الصبح دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پھانسی دیئے جانے کی خبر کا اثر معاشرے پر منفی انداز میں پڑتا ہے لہٰذا معاشرے میں موجود افراد کو کوئی صدمہ نہ پہنچے، اس لیے پھانسی دینے کا وقت ایسا مقرر کیاگیا ہے جب سب لوگ سورہے ہوں۔ 


پھانسی کی تاریخ

1754ء سال قبل مسیح، موجودہ عراق میں جہاں دنیا کی قدیم ترین بابل کی تہذیب واقع تھی، سے ملنے والے حمورابی کے ضابطہ قانون میں بھی موت کی سزاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ موت کی سزا دینے کے لیے قرون وسطیٰ سے لے کر آج تک جو طریقہ سب سے مقبول رہا وہ پھانسی ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی دنیا کے جن ممالک میں سزائے موت لاگو ہے وہاں بیشتر میں پھانسی کے ذریعے ہی فیصلے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ اس میں مجرم کی گردن کے گرد پھندا ڈال کر اسے کسی بھی اونچی جگہ سے لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ وہ گردن کی ہڈی ٹوٹنے یا دم گھٹنے سے مر جائے۔ آج پاکستان، افغانستان، بھارت اور ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں مختلف جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت، پھانسی کے ذریعے ہی دی جاتی ہے۔ پھانسی دینے کا ایک پورا دستور العمل ہے اور اسی کی پیروی کرتے ہوئے اس عمل کو مکمل کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک روز قبل مجرم کا وزن کیا جاتا ہے تا کہ اندازہ ہو سکے کہ سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے رسی کیسی اور کتنی درکار ہوگی جو اس کے جسم کے بوجھ کو سہار سکے۔ تجربے کے لیے مجرم کے وزن کے برابر ریت ایک بوری میں بھر کر اسے تختہ دار پر تجرباتی پھانسی کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ مجرم کی فوری موت کو یقینی بنانے کے لیے رسی کی لمبائی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر رسی زیادہ لمبی ہو تو ملزم کا سر تن سے جدا بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ بہت چھوٹی کر دی جائے تو اس کی موت دم گھٹنے سے ہی ہوگی یعنی اس میں بہت وقت صرف ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق جان نکلنے میں پون گھنٹہ لگ سکتا ہے، یعنی یہ بہت اذیت ناک موت ہو سکتی ہے۔

پھانسی کس طرح دی جاتی ہے؟

پھانسی دینے کے لیے جو رسی استعمال کی جاتی ہے وہ تین چوتھائی انچ سے لے کر سوا انچ تک موٹی ہوتی ہے۔ اسے پھانسی سے قبل اُبالا جاتا ہے اور خوب کھینچ تان کر سخت کیا جاتا ہے تاکہ اس میں لچک اور گھماؤ ختم ہو جائے۔ رسی میں جو گرہ لگائی جاتی ہے اسے موم یا صابن سے خوب چکنا کیا جاتا ہے تاکہ تختہ کھینچنے کے بعد وہ پھندے کو گردن کے گرد اچھی طرح کسنے میں مدد دے۔ پھانسی سے قبل قیدی کے ہاتھ اور ٹانگیں، دونوں باندھے جاتے ہیں۔ آنکھوں پر پٹی بھی باندھی جاتی ہے یا پھر چہرے کو ہی ڈھانپ دیا جاتا ہے، پھر پھندا اس کے گردن کے گرد ڈالنے کے بعد گرہ کو بائیں کان کے قریب رکھا جاتا ہے۔ پھانسی دیتے ہوئے اس کے پیروں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا جاتا ہے اور یوں قیدی نیچے لٹک جاتا ہے اور اس کے جسم کا پورا وزن اس کی گردن پر زور ڈالتا ہے جس سے گردن کی ہڈی ٹوٹ جانی چاہیے لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ مجرم گردن کی ہڈی ٹوٹنے سے مرا ہو۔ تختے پر جھولنے والے شخص کی گردن کے پٹھے مضبوط ہوں یا وزن کافی کم ہو یا پھر رسی چھوٹی ہو یا پھندے کے غلط جگہ پر کسا گیا ہو تو گردن کی ہڈی ٹوٹنے میں وقت لگ جاتا ہے اور موت صرف دم گھٹنے سے آہستہ آہستہ ہی واقع ہوتی ہے۔ اس صورت میں چہرہ خون جمنے کی وجہ سے سوج جاتا ہے، زبان اور آنکھیں باہر نکل آتی ہیں اور مجرم تختہ دار پر تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے۔

اہم شخصیات جنہیں پھانسی دی گئی

تاریخ میں کئی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہیں پھانسی کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ان میں پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہیں کہ جنہیں ایک قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی اور 4 اپریل 1979ء کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔ لیبیا کی تحریک آزادی کے عظیم رہنما عمر مختار کو 16 ستمبر 1931ء کو قابض اطالوی افواج نے پھانسی کی سزا دی۔ اسی سال یعنی 1931ء میں 23 مارچ کو لاہور میں برطانوی راج نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی تھی۔ 17 ستمبر 1961ء کو ترکی کے سابق وزیراعظم عدنان میندریس کو فوج نے آئین کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر پھانسی دے دی۔ ماضی قریب میں عراق کے سابق صدر صدام حسین، بھارت میں افضل گورو اور بنگلا دیش میں عبد القادر ملا کو پھانسی دینے کے واقعات نے بھی عالمی شہرت حاصل کی۔