تحریک انصاف کے لئے خطرے کی گھنٹی ؟

Last Updated On 23 October,2018 09:08 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے 25 جولائی کے قومی الیکشن کے بعد ملک بھر سے قومی اسمبلی کے 12 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 27 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوچکے ہیں جس کا آخری مرحلہ ایک روز قبل مکمل ہوا۔

دنیا نیوز کے پروگرام "دنیا کامران خان کے ساتھ " میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان کا کہنا تھا کہ ضمنی الیکشن کے نتائج نے پی ٹی آئی کی 65 روزہ کارکردگی اور خاص طور پر کے پی کے میں اس کی مقبولیت پر بہت سے سوالات اٹھا دیئے ہیں کیونکہ اسے ا پنے ہوم گراؤنڈ پشاور میں اہم نشست پر ایک انتہائی غیر متوقع شکست کا سامنا کرنا پڑا، یوں تو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو وزیر اعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی 2 نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی 3 پنجاب اسمبلی کی 4 اور کے پی کے کی 3 نشستوں پر شکست ہوئی ہے لیکن پشاور کے حلقے پی کے 71 میں شکست نے تحریک انصاف کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ سیٹ تحریک انصاف کے رہنما شاہ فرمان نے گورنر بننے کے بعد خالی کی تھی لیکن یہاں اے این پی کے امیدوار صلاح الدین نے گورنر شاہ فرمان کے بھائی ذوالفقار خان کو شکست سے دوچار کر دیا اور اس کے ساتھ پشاور میں تحریک انصاف کو ایک اور شکست ہوئی۔

کامران خان نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پشاور میں اے این پی کے ٹکٹ پر جیتنے والے صلاح الدین کا تعلق پہلے پی ٹی آئی سے تھا اور وہ حلقے میں فیورٹ سمجھے جاتے تھے لیکن انہوں نے گورنر شاہ فرمان کے بھائی کو ٹکٹ دینے پر احتجاجاً پارٹی چھوڑ کر اے این پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا یہاں یہ دیکھنے میں بھی آیا کہ تحریک انصاف کے مقامی کارکنوں نے پارٹی کیخلاف ووٹ دیکر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا جس سے پی ٹی آئی کو ایک بار پھر لگا کہ اس کو اپنے آبائی حلقے میں عوامی عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو جن نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ان میں لاہور میں وزیر اعظم عمران خان کی چھوڑی نشست پر مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی کے ہمایوں اختر کو ہرا کر اپنی شکست کا بدلہ لیا جبکہ بنوں سے عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست این اے 35 پر ایم ایم اے کے زاہد اکرم درانی نے تحریک انصاف کے امیدوار کو ہرا کر اپ سیٹ کیا۔

اٹک کے حلقے این اے 56 میں مسلم لیگ ن کے ملک سہیل خان نے پی ٹی آئی کے خرم علی کو 42 ہزار کے مارجن سے ہرا کر پی ٹی آئی کو ایک بہت بڑا صدمہ دیا۔ یہ سیٹ تحریک انصاف کے طاہر صادق نے خالی کی تھی، یہاں بھی ٹکٹ کی تقسیم پر اختلاف ہوئے، ان تمام معاملات میں ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو اندرونی اشتعال کا سامنا ہے اور خاص طور پر ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں حالات بالکل عمران خان کے قابو میں نہیں ہیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل کئی مواقع پر ضمنی الیکشن کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ عام طور پر ضمنی الیکشن حکومت ہی جیتتی ہے بقول عمران خان کے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت ہی ان کے کام کر سکتی ہے اور ان کا یہ فلسفہ اور خیال حالیہ ضمنی الیکشن میں بری طرح سے غلط ثابت ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے نامور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا پی ٹی آئی کیلئے سیٹ بیک ہے اس نے وہ سیٹیں ہاری ہیں جو پہلے جیت چکی تھی، یہ تحریک انصاف کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے، اس سب کی ایک اہم وجہ پی ٹی آئی کے اندر کے اختلافات ہیں وہ متفقہ امیدوار سامنے نہیں لا سکی۔ اس کے کئی ارکان نے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا دوسرا یہ کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں اکٹھی ہو گئیں اور ایک مشترکہ امیدوار لے کر آئیں اور ان کے ووٹ اکٹھے ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے ووٹ تقسیم ہو گئے جس کا حزب اختلاف کو فائدہ ہوا۔ مہنگائی میں اضافہ بھی حکومت کے بارے میں منفی تاثر ہے اور جو وعدے ہوئے ان کی تکمیل ابھی باقی ہے۔ انکا کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ووٹر بڑا کڑا احتساب کرتے ہیں اور انہوں نے دو ڈھائی ماہ کی کارکردگی کا احتساب کیا۔ پی ٹی آئی رہنما ؤں نے اپنے رشتہ داروں کو ٹکٹ دلوائے جس کا تحریک انصاف کو بہت نقصان ہوا، خیبر پختونخوامیں واضح مقابلہ اے این پی اور پی ٹی آئی میں ہے۔
 

Advertisement