لاہور: ( ہارون الرشید) سوال یہ ہے کہ عمران حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی کیا رنگ لائے گی ؟ خبر یہ ہے کہ چین اور ملائیشیا کا رویہ مثبت ہے۔ ایسے اشارے موصول ہوئے ہیں کہ اگلے دو ہفتوں کے دوران دونوں ممالک کے دورے تمام ہونے پر اقتصادی بحران سکڑنے لگے گا۔ باخبر ذرائع کے مطابق چین نے 6 ارب ڈالر کے ایسے منصوبے شروع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے، جن پر تیز رفتاری سے کام ہوگا۔ متحدہ عرب امارات بھی دو ارب ڈالر دینے پر آمادہ ہے۔ ملائیشیا سے بھی اچھی خبروں کی امید ہے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف سے تین یا چار ارب ڈالر کے قرض کی ضرورت رہ جائے گی۔
قابل اعتماد سرکاری حلقوں کا دعویٰ یہ ہے کہ نومبر کے آخر تک نہ صرف مالی بحران ختم ہو جائے گا بلکہ حکومت قدم جمانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہ بیٹھی رہے گی۔ آصف علی زرداری سب سے زیادہ خطرے میں ہیں کہ ان پر منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات ہیں۔ کسی بھی وقت وہ گرفتار کئے جا سکتے ہیں۔ دوسری طرف جہاندیدہ فضل الرحمن سب سے بڑھ کر انتقام کے جذبے کا شکار ہیں۔ جمعیت علماء اسلام اور پی ٹی آئی میں کشمکش مدتوں سے چلی آتی تھی۔ ایک طرف’ ایک خاص مکتب فکر کی انتہائی قدامت پسند پارٹی ہے جس کی طاقت کا منبع دینی مدارس ہیں۔ دوسری طرف اقبال، قائداعظم اور ایک خاص حد تک مغرب سے متاثر نئی نسل کا نمائندہ ہے۔ ناراض نسل عصری تقاضوں کے مطابق جو تعمیر نو چاہتی ہے مگر ان سیاستدانوں کا احتساب بھی چاہتی ہے گزشتہ عشروں میں ملک کو جنہوں نے لوٹ کھایا۔ جذباتی طور پہ اس کی تسکین نہیں ہو سکتی جب تک نواز شریف’ آصف علی زرداری اور اپنے ‘‘قائداعظم’’ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے والے مولانا کا سختی سے احتساب نہ ہو۔ دونوں پارٹیوں کی کشمکش تو پہلے سے تھی مگر 2013 کے انتخابی نتائج نے مولانا فضل الرحمن کو مشتعل کر دیا۔ ذہنی طور پر صوبائی حکومت بنانے کیلئے وہ بالکل تیار تھے ۔ بالکل غیر متوقع طور پر عمران خان نے موصوف کی بساط لپیٹ دی۔
یہی نہیں’ وقتی طور پہ مولانا ہی کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی بھی مدتوں سے وسطی پنجاب میں تقسیم پشتون خاندان کے فرزند سے جا ملی۔ باقی تاریخ ہے۔ کیا مولانا فضل الرحمن ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد قائم کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ سیاسی عوامل کچھ زیادہ ان کے حق میں نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عمران خان کی ہم آہنگی مثالی ہے۔ اس قدر کہ پنجابی محاورے کے مطابق ایک کو بخار چڑھے تو دردناک آواز دوسرے کی سنائی دیتی ہے۔ عوام میں مولانا فضل الرحمن سے بہرحال وہ دس گنا مقبول ہیں۔ چین اور عربوں سے معاملات بہتر بنانے کے بعد’ عسکری انتظامیہ’ جس کی راہ پہلے ہی ہموار کر چکی تھی’ عمران خان کی راہ کے کانٹے کم ہو گئے ہیں۔ آئندہ چند ہفتوں میں باقی ماندہ بھی اگر چن لئے گئے تو پی ٹی آئی حکومت مضبوط ہو جائے گی۔ اپوزیشن کے مضبوط اتحاد کی تشکیل سہل نہیں۔ قرائن یہ کہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے کچھ نہ کچھ مفاہمت ہو چکی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے باب میں کچھ نہ کچھ نرمی اختیار کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ نواز شریف موجودہ نظام کو تختل نہ کریں گے۔ اس کے بدلے میں عتاب سے وہ محفوظ رہیں گے ، جس کے وہ مستحق ہو سکتے ہیں۔ یہ تو درست نہیں کہ ٹیلی ویژن وہ کم دیکھتے ہیں بلکہ شاید تمام دوسرے سیاستدانوں سے زیادہ’ حتیٰ کہ ‘‘مذاق رات’’ ایسے مزاحیہ پروگرام بلکہ ترکی ڈرامے بھی۔ البتہ جمعرات کو میاں صاحب کے اس موقف کو تکبر کا مظہر نہ سمجھنا چاہیے کہ وزیراعظم کی تقریر انہوں نے سنی ہی نہیں۔ درحقیقت اس موضوع پر اظہار خیال کر کے ’ وہ ایک ایسے تنازع کا فریق بننے سے گریزاں ہیں’ جس میں ان کی پوزیشن کمزور ہے۔
قابل اعتماد ذرائع کے مطابق برطانیہ اور بعض دوسرے ممالک میں ان کی مزید جائیدادوں کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔ اس پوزیشن میں وہ ہر گز نہیں کہ طبلِ جنگ بجا سکیں۔ آصف علی زرداری بھی نہیں بچا سکتے۔ ان دنوں انٹرویو کرنے والے اخبار نویسوں سے جو التجا کرتے ہیں کہ انہیں کرسی پر بیٹھتے اور اٹھتے ہوئے نہ دکھایا جائے۔ ٹانک کے بغیر شام وہ گزار نہیں سکتے ۔ دل اور شوگر کی بیماری بڑھ گئی ہے۔ خطرات منڈلا رہے ہیں اور صحت بے حد خراب ہے۔ ایک عوامی تحریک برپا کرنے کیلئے حالات ہرگز سازگار نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عمران حکومت کیلئے ‘‘سب اچھا’’ ہے ۔ ایم کیو ایم اور اختر مینگل اگر اس حکومت کو داغِ مفارقت دینے پر آمادہ ہو جائیں تو وہ گر سکتی ہے۔ سامنے کا سوال مگر یہ ہے کہ اپوزیشن انہیں کیا دے سکتی ہے ؟ بلوچستان کی حکومت میں اختر مینگل کو اگر حصہ ملے تو برائے نام ہوگا۔ صوبے کے وہ وزیراعلیٰ رہ چکے اور ایک بڑے قبیلے کے سردار ہیں۔ صوبائی وزارت سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ تعجب کے ساتھ پوچھا جاتا ہے کہ ایک ایسا وزیراعظم کرپشن کے نام پر’ مخالفین کو دھمکیاں دینے کا کیا حق رکھتا ہے جس کی کابینہ میں فہمیدہ مرزا اور زبیدہ جلال شامل ہیں۔ جس کے اپنے قریبی ساتھیوں کے خلاف نیب تحقیقات کر رہی ہے۔
چھ ہفتے قبل عمران خان نے اس سوال کا جواب اپنی پارٹی کے ایک وفد کو دیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا’ اس کا خلاصہ یہ ہے :تم لوگوں کی نالائقی کے سبب اتنی ہی سیٹیں میں حاصل کر سکا کہ حکومت بنانے کیلئے ’ چھوٹی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ پہ انحصار کرنا پڑا۔ بحران سے عمران خان نکل گئے اور پختون خوا ایسی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کر سکے جہاں دوسرے الیکشن میں ان کی سیٹیں لگ بھگ دوگنا ہو گئیں۔ دو اڑھائی برس کے بعد وہ وسط مدتی الیکشن کرانا چاہیں گے۔ اپوزیشن اس امکان کو ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کر سکتی؛ لہٰذا کچھ نہ کچھ تو اسے کرنا ہی ہوگا۔ حکومت اگر مستحکم ہو گئی تو اسٹیبلشمنٹ کے قدرے نرم روّیے کے باوجود’ عمران خان اپنے بعض مخالفین کو جیل میں دیکھنا چاہیں گے۔ 2013ء سے 2018ء کے درمیان پختون خوا میں اپنے کسی سیاسی مخالف کو انہوں نے تنگ نہ کیا۔ اس سے کیا یہ نتیجہ اخذ نہ کرنا چاہیے کہ جذبئہ انتقام سے وہ مغلوب نہ ہوں گے بلکہ احتساب کے لئے اداروں ہی پر انحصار کریں گے ۔ دھمکیاں البتہ دیتے رہیں گے کہ آدمی کی افتاد طبع ہی اس کی تقدیر ہوتی ہے۔