اسلام آباد (دنیا نیوز) آئی جی اسلام آباد کے تبادلےپر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک عام شہری کی حیثیت سے آئی جی اسلام آباد سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے 22 گھنٹے تک فون نہیں سنا۔
دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ ان کے گھر پر حملہ کرکے ملازم کو زخمی کیا گیا۔
وفاقی وزیر کے بیٹے نے پولیس کو دی گئی درخواست میں بتایا کہ ملزمان نے مویشی ان کے باغات میں چھوڑے اور منع کرنے پر ملازمین پر کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا گیا۔ ملزمان نے گن مین سے کلاشنکوف کی میگزین بھی چھین لی تھی۔
صحافی سے گفتگو میں اعظم سواتی نے بتایا کہ اس حوالے سے پہلے بھی آئی جی اسلام آباد کو درخواست دی تھی لیکن تنگ آکر معاملہ وزیر اعظم اور سیکرٹری داخلہ کے نوٹس میں لانا پڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی خلاف قانون کام نہیں کیا اور ساتھ ہی ساتھ سوال اٹھایا کہ کیا عام شہری کی حیثیت سے تحفظ کا مطالبہ میرا حق نہیں؟
اپنی گفتگو کے آخر میں اعظم سواتی نے اعلان کیا کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش ہو کر اس سارے معاملے پر اپنا موقف دیں گے۔
آج صبح چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلےکا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل کو عدالت کرلیا۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ سنا ہے کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی کا تبادلہ کیا گیا، سیکرٹری داخلہ بتائیں کہ آئی جی اسلام آباد کو کیوں ہٹایا، سنا ہے کسی وفاقی وزیر کے بیٹے کا معاملہ ہے، قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
یاد رہے گزشتہ روز وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا آئی جی پولیس اسلام آباد کو کسی دباؤ کی وجہ سے ہٹانے میں کوئی صداقت نہیں بلکہ اس حوالے سے فیصلہ تین ہفتے قبل کر لیا گیا تھا۔ ترجمان نے اپنے ایک بیان میں تردید کی کہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا فون اٹینڈ نہ کرنے پر تبدیل کیا گیا ہے وزیراعظم عمران خان کی مصروفیات اور دورہ سعودی عرب کی وجہ سے تبادلے کی سمری منظور ہونے میں تاخیر ہوئی۔