(تجزیہ : سلمان غنی ) مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف سے جے یو آئی ف کے امیرمولانا فضل الرحمن کی ملاقات میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی ،مسلم لیگ ن کی قیادت نے اے پی سی کی تجویز پر اصولی اتفاق تو کیا تاہم حتمی فیصلہ کے لئے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے مشاورت کو لازمی قرار دیا، ملاقات میں نواز شریف نے اپوزیشن کے متحرک کر دار پر بھی اتفاق کیا مگر حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کو اس سطح پر لے جا نے سے اجتناب کا مشورہ دیا جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے۔
موجودہ حالات اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کے لئے سازگار ہیں اور کیا اس صورتحال میں عوام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہو پائیں گے ؟ ان سوالوں کے جوابات کے لئے ہمیں پہلے موجودہ سیاسی منظر نامے کو اپنے ذہن میں رکھنا پڑے گا، ایک جانب نواز شریف ا پنے مقدمات بھگت رہے ہیں اور ان کے چھوٹے بھائی اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ا حتساب کی لپیٹ میں نیب کے تفتیش کاروں کی مشقِ ستم بنے ہوئے ہیں، دوسری جانب پاکستانی سیاست کے متنازعہ ترین ماضی کے مقدمات کو بھگتنے والے مرد سیاست آصف زرداری کے خلاف نئے الزامات اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات سنگین ترین مرحلے میں پہنچ چکی ہیں اور آئے روز ان کی گرفتاری کی باتیں میڈیا میں عام ہیں۔
تیسری جانب مولانا فضل الرحمن جیسے منجھے ہوئے مگر اس وقت شکست اور غصے کی نفسیات کے زیر اثر سیاستدان ہیں جو ہر وقت موقع بے موقع محاذ آرائی بلکہ جنگ آزمائی پر تیار اور کمربستہ ہیں، اس ساری صورتحال میں حکومت بھی عقل و ہوش کا دامن تھامنے کو تیار نہیں، احتساب کی ڈرائیو اپنے جوبن پر ہے اور حکومتی نقطئہ نظر فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان جیسے شعلہ بیانوں کی ذمہ داری بن چکا ہے جو انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں ہر موقع پر 50 سیاستدانوں کے حوالہ زنداں کئے جانے کی ’’خوشخبریاں‘‘سناتے رہتے ہیں۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام کے لئے سازگار تمام غلطیاں حکومت کر رہی ہے مگر عوام میں ایک واضح اکثریت پورے خلوص سے موجودہ حکومت کو موقع دینا چاہتی ہے ،قوم کا ایک ذہن بن چکا ہے کہ عمران کو موجودہ بحران سے نمٹنے کا پورا موقع ملنا چاہیے ، اپوزیشن کی بڑی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سیاسی میدان میں کافی کچھ کھو جانے کے باوجود آج بھی صبر و تحمل سے نظام کے تسلسل اور عوامی نبض پر ہاتھ دھرے ہوئے ہیں مگر مولانا فضل الرحمن کی بے چینی اور اضطراب کی حالت دیدنی ہے ، ان کے اتحادی نواز شریف اور زرداری کا خیال ہے کہ ٹائمنگ کسی بھی سیاسی تحریک میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ حکومت کو ٹیک آف کرنے دیا جائے اور اس کے بعد حکومت اپنی غلطیوں کے بوجھ سے گر جائے تو پھر شاید انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی،موجودہ حکومت کو چلنے دیا جائے مگر اس وقت مولانا اس موڈ میں دکھائی نہیں دے رہے ، فضل الرحمن کا اپنا دکھ ہے ،ان کا روایتی حلقہ انتخاب اور روایتی حلقہ اثر اپنے صوبے میں دن بدن کم ہو رہا ہے ،خیبرپختونخوا میں اقتدار تو دور کی بات ایک مؤثر اپوزیشن بھی ان کا مقدر نہیں بن سکی، اس لئے یہ ساری صورتحال ان پر سیاسی دیوانگی طاری کر رہی ہے، فضل الرحمن بھول رہے ہیں کہ ان کے دونوں بڑے اتحادی موجودہ صورتحال میں کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ عمران حکومت وقت سے پہلے گر کر سیاسی شہید بن جائے اور عوام میں دوبارہ ہمدردیاں سمیٹ کر سیاسی میدان میں ایک زور دار حریف کے طور پر کھڑی ہو جائے ، ویسے اس ملک میں سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ہمیشہ الائنس کا ایک خاص موقع اور خاص اشارے ہوتے ہیں۔
جب مقتدر حلقے ایک حکومت سے مایوس ہو جائیں تو پھر وہ اپوزیشن والے کیمپ سے نامہ و پیام استوار کرتے ہیں پھر ملک میں سیاست کا رنگ و آہنگ بدلنے لگتا ہے ، خود عمران خان کی جماعت بھی 2013 کے انتخابات کے بعد ایک سال تک حکومت کے خلاف محاذ آرائی میں ناکام رہی تھی، جب حالات سازگار ہوئے اور نواز شریف سے مقتدر حلقے مایوس ہونا شروع ہوئے تو پھر اپوزیشن نے بھی پر پرزے نکالنے شروع کر دیئے تھے ، اس وقت بھی یہی حقیقت ذہن میں رکھنی ہوگی کہ جب تک موجودہ حکومت کو اقتدار کے طاقتور کھلاڑیوں کی آشیرباد حاصل رہے گی نتیجہ اپوزیشن کے لئے صفر ہی رہے گا۔
لہٰذا مولانا فضل الرحمن کو حوصلے سے کام لینا پڑے گا اور دونوں سنجیدہ اور آزمودہ سیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر سمجھنا ہوگا کہ حکومت کو گرانے کے لئے قبل از وقت توانائی صرف کرنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ صرف پارلیمنٹ کا مورچہ سنبھالا جائے اور ایک غیر تجربہ کار حکومت کو قانون سازی کے عمل میں دھچکہ پہنچایا جائے اور اس حقیقت کو تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز سمجھ لیں کہ موجودہ حکومت اپنے غلط فیصلوں، مغالطوں، کنفیوژن،آئے روز کے یوٹرن اور غیر معیاری معاشی فیصلوں کے ذریعے اپنا سفینہ وقت سے پہلے اور ساحلوں سے دور خود ڈبو دے گی۔
لہٰذا حکومت سے محاذ آرائی کے بجائے اسے غلط فیصلے کرنے دئیے جائیں اور پھر مناسب اور فیصلہ کن وقت پر حکومتی فیصلے پر سیاسی یلغار کی جائے اور حکومت کو بھی اپنے مینڈیٹ کے مطابق ڈلیور کرتے نظر آنا چاہیے ،معاشی ترقی کے ذریعے عام عوام کو ریلیف دینا چاہیے اور اگر حکمران خصوصاً اس حکومت کے سربراہ اپنی ہر تقریر میں اپوزیشن کو کوسنے ،انہیں گرفتاریوں اور جیلوں میں بند کرنے کی دھمکیاں دیں گے تو پھر یہ سوال ضرور کھڑا ہوگا وہ اپنی عددی اکثریت میں کمی کے باوجود کس کے اشارے پر سیاسی محاذ آرائی بڑھا رہے ہیں کیونکہ احتساب حکومت کے بجائے آئینی ادارے نیب کا کام ہے اور جب حکومتی ذمہ دار خود نیب کے ترجمان کے فرائض سنبھال لیں گے تو پھر اپوزیشن کے اس نقطہ نظر میں وزن محسوس ہوگا کہ حکومت بلا امتیاز اور شفاف احتساب کے بجائے یکطرفہ اور سیاسی احتساب چاہتی ہے اور یہی ہمارا اب تک کا قومی سیاسی المیہ رہا ہے کہ ہم اپنے اصل کام کے بجائے کسی دوسرے کام کا ذمہ اٹھا لیتے ہیں جس سے نہ تو کام ہوتا ہے اور نہ ہی اداروں کے درمیان ہم آہنگی رہتی ہے ۔