لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سابق وزیراعظم مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے بلائی جانے والی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مذکورہ اے پی سی کے لیے مسلم لیگ ن نے پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کی قیادت میں وفد بھجوانے کا عندیہ دیا ہے۔
مجوزہ اے پی سی کے مقاصد کیا ہیں ؟ مسلم لیگ ن کی قیادت اس میں شرکت سے گریزاں کیوں ہے ؟ اور کیا اے پی سی موجودہ حالات میں حکومت پر دباؤ بڑھانے میں کارگر ہوگی ؟ جہاں تک اے پی سی کے مقاصد کا تعلق ہے تو مولانا فضل الرحمن سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت دھاندلی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے اور بر سر اقتدار آنے کے بعد حکومت معاشی، سیاسی بنیاد پر ڈلیور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں حکومت کو اپنے پاؤں مضبوط کرنے اور اپنی جڑیں مؤثر بنانے سے قبل ہی اپوزیشن کے دباؤ میں لایا جائے تا کہ آنے والے وقت میں وہ اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار کے ساتھ نہ لگا سکیں گو کہ یہی خیالات مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بھی ہیں مگر وہ سب کچھ جاننے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت خواہ کیسے ہی وجود میں آئی ہے۔ ایسی صورتحال میں اسے ٹارگٹ کرنے کے بجائے موقع دیا جانا چاہئے کہ وہ اپنے مینڈیٹ کے تحت ڈلیور کر سکے اور لوگوں نے اس حکومت سے جو توقعات قائم کی ہیں وہ پوری ہو سکیں جن کے بارے میں دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ سمجھتی ہے کہ حکومت ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں نہیں لہٰذا بلاوجہ اس کی ناکامی کا ملبہ اپنے اوپر نہ ڈالا جائے اور اسے یہ جواز نہیں ملنا چاہئے کہ اپوزیشن نے اسے چلنے نہیں دیا۔
لہٰذا ایک سوچ اور اپروچ کے تحت ہی بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ اس مرحلہ پر حکومت گرانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ جہاں تک اے پی سی میں خود میاں نواز شریف کی عدم شرکت کا سوال ہے تو جاتی امرا میں مولانا فضل الرحمن سے اپنی ملاقات میں بھی نواز شریف انہیں اس امر کا اشارہ یہ کہہ کر دے چکے تھے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اے پی سی ناگزیر ہے تو پھر اس میں ہماری حمایت ضرور شریک ہوگی۔ البتہ اس ملاقات میں یہ کہا گیا تھا کہ جن ایشوز کی نشاندہی کرتے ہوئے اے پی سی بلائی جا رہی ہے تو یہ کام پارلیمنٹ کے فلور پر بھی ہو سکتا ہے اور یہاں حکومت پر دباؤ بھی بڑھایا جا سکتا ہے اور اس کی ناکامی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ پارٹی کے ذمہ دار ذرائع کہہ رہے ہیں کہ چونکہ اس اے پی سی میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کوئی بڑا فیصلہ نہیں ہونے جا رہا اور نہ ہی کسی بڑے فیصلہ کن اقدام کا اعلان متوقع ہے لہٰذا ہم مناسب نہیں سمجھتے ہیں کہ اس میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف موجود ہوں البتہ آنے والے وقت میں جب اس کی ضرورت ہوگی تو ان کی موجودگی بھی یقینی بن سکتی ہے۔ لہٰذا میاں نواز شریف کی مذکورہ اے پی سی میں عدم شرکت کے بعد یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف زرداری بھی اے پی سی میں شامل نہ ہوں البتہ بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی یقینی بن سکتی ہے لہٰذا مذکورہ اے پی سی میں دونوں بڑی جماعتوں کی حقیقی لیڈر شپ کی عدم موجودگی میں کسی بڑے فیصلہ کن اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
جہاں تک اے پی سی کے مقاصد کا تعلق ہے تو اپوزیشن کے حلقوں میں یہ خطرات اور خدشات پائے جاتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت مؤثر احتسابی عمل کو یقینی بنانے کے لیے اپوزیشن کے بعض ذمہ داران کی گرفتاریوں میں دلچسپی رکھتی ہے جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں اور خود وزیراعظم عمران خان بھی ایسے سگنل دے چکے ہیں کہ جب ان کے لوگ کرپشن میں پکڑے جائیں گے تو پھر یہ کہیں گے کہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ لہٰذا اس خدشہ کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتیں پہلے سے ہی احتسابی عمل کو متنازعہ بنانے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا قیام چاہتی ہیں تا کہ اپوزیشن جماعتوں کے ذمہ دار ان کی گرفتاریوں کی صورت میں الگ الگ ردعمل اور احتجاج کرنے کے بجائے مشترکہ اور متفقہ طور پر باہر نکلا جائے اور حکومت کے خلاف احتجاجی عمل کا آغاز ہو اور اس حوالے سے خود مسلم لیگ ن کے بعض ذمہ داران بھی مولانا فضل الرحمن کی جانب سے بلائی جانے والی اے پی سی کے حامی ہیں تا کہ گرفتاریوں کے بعد ایسا کوئی اقدام اور اعلان کی وہ حقیقت نہیں بن سکے گی جس کے لیے ابھی سے پلاننگ ضروری ہے ۔ جہاں تک اس سارے عمل میں مولانا فضل الرحمن کی دلچسپی کا سوال ہے تو پارلیمنٹ کا حصہ نہ بننے کے بعد اپنی سیاسی حیثیت اور اہمیت کو قائم رکھنے کے لیے وہ سیاسی محاذ پر اپنا کردار چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس مرحلہ پر وزیراعظم عمران خان کو براہ راست چیلنج کرنے کے لیے کوئی بڑی شخصیت میدان میں موجود نہیں۔ لہٰذا وہ یہ فریضہ سر انجام دینے کے لیے خود کو تیار کئے ہوئے ہیں لیکن دیکھنا یہ پڑے گا کہ کیا اپوزیشن کے محاذ پر انہیں بڑا کردار مل سکتا ہے۔