اسلام آباد: (تجزیہ :خاور گھمن) وزیر اعظم عمران خان ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، کسے وزیر بنائیں، مشیر یا سفیر، یہ سب ان کا استحقاق ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی میں کس کو کیا ذمہ داری سونپنی ہے، یہ بھی وزیر اعظم کا اختیار ہے، لیکن ان فیصلوں میں شفافیت اور میرٹ نظر آنا چاہیے، یہی جمہوریت اور جمہوری حکومتوں کا خاصا اور حسن ہے، بصورت دیگر فرد واحد کی ذات میں تمام اختیارات کا مرکوز ہونا اور ان کا ناجائز استعمال، آمریت ، کہلاتا ہے۔
بیورو کریسی خاص کر پولیس میں حالیہ اکھاڑ پچھاڑ وزیر اعظم کے دعوؤں سے میل نہیں کھاتی۔ صرف ستر دن میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نہ صرف بیورو کریسی سے ناخوش ہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق کچھ وزرا کو بھی وارننگ دے دی گئی ہے۔ شریف برادران نے ہر دور میں حکومت اپنے من پسند افسروں کے ذریعے چلانے کو ترجیح دی اور اس میں بھی ڈی ایم جی گروپ منظور نظر رہا۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ اس کی زندہ جاوید مثالیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر افسر شاہی بقول وزیراعظم اور وزرا کے حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی تو اس ساری صورتحال کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، بیورو کریسی کی تعیناتی سے متعلق معاملات کو دیکھنے کے لیے شہزاد ا رباب کو مشیر خاص بنایا گیا ہے جو خود ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ سے ہیں۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ہوں، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری، چیئرمین ایف بی آر ہوں یا سیکریٹری تجارت، سب کا تعلق ڈی ایم جی گروپ سے ہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان شریف برادران کی حکومت کو ناکام حکومت کہتے ہیں، تو نون لیگ کی حکومت کو ناکام کرنے والی بیوروکریسی تحریک انصاف کی حکومت کو کیوں کر کامیاب کرے گی یا کر سکے گی؟
موجودہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو شہباز شریف کیساتھ اہم ترین عہدوں پر تعینات رہے، خاص کر وہ پنجاب انرجی بورڈ میں بھی اہم ذمہ د اریاں نبھاتے رہے جس کے آج کل بہت چرچے ہیں۔ ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ حکومت ان افسروں کی تفصیل اکٹھی کر رہی ہے جن کو ماضی کی حکومتوں نے سائیڈ لائن کیے رکھا، لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا۔ انجام کار وہی افسر اوپر آئے جن کے رابطے اقتدار کے ایوانوں میں تھے۔ لہذا اب اگر وزیر ا عظم اور کابینہ اراکین یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ افسر شاہی حکومت سے تعاون نہیں کر رہی تو اس کی ذمہ داری انہی تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں کابینہ کو فعال ہونا چاہے تاکہ بیوروکریسی کو لگام دے کر عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جا سکے، لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، وزراء بیوروکریسی سے اپنی جی حضوری اور پروٹوکول کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر انہیں چند دن بھی ٹکنے نہیں دیا جا رہا۔
پوری دنیا میں تمام کاروبار زندگی ڈیجیٹلائز ہو رہے ہیں، موجودہ حکومت بھی ای کامرس کی بات کر رہی ہے، اب دیکھنا ہے کہ وزیر آئی ٹی خالد مقبول صدیقی کسطرح کا ڈیجیٹل انقلاب لے کرائیں گے جس کی ابھی تک کسی کو کانوں کان خبر نہیں۔ اسی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کا قلمدان اعظم سواتی کے پاس ہے جوآجکل ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے بجائے اپنے فارم ہاؤس کے پھیلاؤ میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں، وزیر اعظم کے دوست زلفی بحاری جو کہنے کو تو بیرون ملک پاکستانیوں کے وزیر ہیں لیکن ای سی ایل میں نام ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک اپنے جوہر نہیں دکھا سکے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر اعظم نوازشات کرنے میں کچھ صبر کر لیتے یا زلفی بخاری نام کلیئر ہونے تک خود یہ اہم عہدہ لینے سے انکار کر د یتے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ان کے پاس یہ عہدہ 22 کروڑ عوام کی امانت ہے، اس میں خیانت عوام قبول نہیں کریں گے اور احتساب کا آخری حق بھی عوام ہی کے پاس ہے، پانچ سال بعد عوام اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ سنائیں گے، اور اب یہ عمران خان اور ان کی ٹیم پر منحصر ہے کہ عوام انہیں انعام سے نوازیں یا اپنے غضب کا نشانہ بنائیں۔