لاہور: (طارق عزیز) مسلم لیگ (ن) نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی کیلئے نئی تجویز دیدی، جس کے مطابق پی اے سی کے چیئرمین اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ہی ہوں گے تاہم (ن) لیگ کے دور حکومت کی آڈٹ رپورٹس کے دوران حکومت کی جانب سے سینئر رکن جو پینل آف چیئرمین میں شامل ہوں گے، پی اے سی کی صدارت کریں گے اس دوران شہباز شریف اپنے آپ کو کمیٹی سے الگ کرلیں گے،حکومت نے نیم رضامندی ظاہر کردی ہے، حتمی فیصلہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے واپسی پر ہو گا۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مفاہمانہ رویے اور آسیہ بی بی معاملہ پر حکومت کیساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کے بعد شہباز شریف کی بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی تعیناتی کا امکان پیدا ہوگیا ہے، آئندہ ہفتہ چیئرمین پی اے سی کی تعیناتی کا مسئلہ حل کر لیا جائے گا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی اور رکنیت قبول کرے گی۔ حکومت اور (ن) لیگ میں مفاہمت کیلئے راہ ورسم کے نتیجہ میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو مشروط طور پر چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی مقرر کیا جا رہا ہے۔
شرط یہ ہو گی کہ (ن) لیگ دور حکومت کے آڈٹ پیروں کے دوران تحریک انصاف کا کوئی رکن اجلاس کی صدارت کرے گا حتیٰ کہ اس دوران شہباز شریف اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوں گے، مسلم لیگ (ن) نے تین سال کیلئے اپوزیشن اور 2 سال کیلئے حکومتی رکن کو چیئرمین پی اے سی بنانے کی تجویز مسترد کر دی ہے اور واضح کیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر ہی پانچ سال کیلئے چیئرمین پی اے سی ہوگا تاہم تحریک انصاف کا یہ اعتراض ختم ہو جائے گا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور کا آڈٹ شہبازشریف کریں گے دیگر اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی نے بھی اس تجویز کو مناسب اور قابل عمل قرار دیتے ہوئے شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کی حمایت کی ہے۔
قبل ازیں مسلم لیگ (ن) نے سردار ایازصادق اور خواجہ آصف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کی تجویز پیش کی تھی تاہم اب شہبازشریف کو مشروط چیئرمین شپ دینے پر حکومت نے نیم رضامندی ظاہر کردی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کیلئے میرٹ قائم کر دیا، جس کیلئے تین شرائط عائد کر دی گئی ہیں ، (ن) لیگ کے حصہ میں 9 کمیٹیوں کی سربراہی آرہی ہے ، جس کیلئے ارکان اسمبلی نے لابنگ اور سفارشیں کرانا شروع کرد یں، چیئرمین پی اے سی کا مسئلہ حل ہونے کے ساتھ ہی (ن) لیگ سپیکر کو اپنے نام بھجوادیگی، شہباز شریف نے اس کیلئے معیار اور میرٹ قائم کر دیا، اس حوالے سے تین شرائط عائد کی گئی ہیں سابق وفاقی وزیر کسی قائمہ کمیٹی کا چیئرمین نہیں ہو گا، پہلی بار رکن اسمبلی منتخب ہونیوالے کو کمیٹی کی چیئرمین شپ نہیں دی جائے گی جبکہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے مردوخواتین ارکان اسمبلی چیئر مین شپ کے حقدار نہیں ہونگے، البتہ راناثنااللہ جو 10 سال پنجاب میں وزیر قانون اور شہباز شریف کے رائٹ ہینڈ رہے ہیں انہیں استثنیٰ دیا جاسکتا ہے۔
قوی امکان ہے کہ انہیں قائمہ کمیٹی داخلہ کا چیئرمین بنایا جائے گا، رانا شمیم احمد بھی داخلہ کمیٹی کی چیئرمین شپ کے خواہشمند ہیں جبکہ لیگی ارکان میرٹ اور معیار سے لاعلم ہیں۔