لاہور: ( روزنامہ دنیا) سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین سے عوام کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوسکیں، عمران خان قوم کیلئے چین سے کوئی پیکیج لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو امید تھی کہ جس طرح سعودی عرب سے ایک پیکیج ملا ہے اس طرح کا چین سے بھی مل جائے گا۔ وزیر اعظم کے دورہ چین سے کچھ معاہدوں پر دستخط ضرور ہوئے ہیں لیکن خالی ہاتھ لوٹنے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ چینی حکومت نے پاکستانی حکومت کوتھوڑی سی یاددہانی کرائی ہے اور پاکستان کو وہ تجارتی سہولت فراہم کرنے پر بھی کوئی پیش رفت نہیں کی گئی جو چین نے بنگلہ دیش یا آسیان کو فراہم کی ہوئی ہے۔
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ شاہد جاوید برکی نے کہا کہ پاک چائنا مشترکہ اعلامیہ بہت بڑی پیش رفت ہے، چین پاکستان کے ساتھ لمبے عرصے کیلئے تعاون کرنا چاہتا ہے، حالات تبدیل ہو رہے ہیں، چین والے بات کو سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسی سمجھ نہیں ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ چین کوئی مالیاتی پیکیج دے گا لیکن چین پاکستان کے ساتھ لمبے عرصے کیلئے تعاون کرنا چاہتا ہے اور خواہاں ہے کہ پاکستان کی آباد ی اس سے فائدہ اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خیال شارٹ ٹرم تھا لیکن چائنا کا خیال لانگ ٹرم ہے، چینی سعودی عرب کی طرح کام نہیں کرتے بلکہ لانگ ٹرم سوچتے ہیں اس لئے ہمیں اپنی استعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مالی حالت خراب نہیں بلکہ یہ میڈیا کی نا سمجھی ہے، یہ ایسی حالت نہیں ہے کہ ہم جگہ جگہ بھیک مانگتے پھریں، ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ نے کہا کہ چین کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت سے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوگا، پاک چین مذاکرات اب وزیر خارجہ کی سطح پر ہونگے جو پہلے نچلی سطح پر ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر پر جو دباؤ آ رہا ہے وہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے ہے۔ اس وقت چین نے ورلڈ بینک کوبھی سی پیک پر رپورٹ دینے کیلئے کہا ہے، چین دنیا سے الگ تھلگ نہیں جا رہا، پاکستان کی سٹاک ایکسچینج میں چین کی سرمایہ کاری آچکی ہے، چین نے پاکستان کو یہ بھی اشارہ دیدیا ہے کہ اگر پاکستان کو کہیں ضرورت پڑے گی تو ہم وہاں موجود ہونگے۔