لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا دورۂ چین ملک کے کئی حلقوں میں زیرِ بحث ہے ۔ حکومت کے ناقدین اس دورے کو بے سود قرار دے رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کی رائے میں یہ ملک کے لیے بہت اہم تھا۔ یہ دورہ وزیرِ اعظم نے ایک ایسے وقت میں کیا جب ملک میں نہ صرف معاشی بحران ہے بلکہ ان کی رخصتی کے وقت ملک ایک سیاسی بحران سے بھی گزر رہا تھا اور اسلامی ریاست کے طول و عرض پر سخت گیر مذہبی تنظیم نے دھرنے دیئے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ایسے وقت میں خان صاحب کو چین کا دورہ نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن پی ٹی آئی کے حامی اس تنقید کو بلاجواز قرار دیتے ہیں۔
معروف تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں یہ دورہ پاکستان کے لیے بہت اہم تھا اور وزیرِ اعظم کو ہر صورت میں یہ دورہ کرنا چاہئے تھا، ‘‘میرے خیال میں یہ دورہ ملک کے لیے بہت سود مند ثابت ہوا ہے۔ عمران خان کی کوشش ہے کہ چین ملک میں سرمایہ کاری کرے اور و ہ یہ نہیں چاہتے کہ بیجنگ ریاض کی طرح ہمیں صرف پیسے دے۔ اس کے علاوہ چین سے مقامی کرنسی میں تجارت سے ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہو گا۔ جب کہ میرے خیال میں چین کوئی مالی امداد بھی کرے گا، جس سے پاکستان کا ادائیگی کاتوازن بہتر ہوگا۔ تو میرے خیال میں یہ دورہ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔’’پاکستان اور چین کے درمیان حالیہ ہفتوں میں سی پیک کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں بیجنگ میں یہ تاثر ہے کہ نئی حکومت سی پیک کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہے اور شاید اس کو رول بیک کرنا بھی چاہتی ہے ۔ اس حوالے سے یہ دورہ اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کے خیال میں خطے کی صورت حال بھی اس دورے کا ایک اہم نقطہ ہے، ‘‘اس حکومت کے آنے کے بعد ایسے بیانات وزرا کی طرف سے آئے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پی ٹی آئی کی حکومت چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہے۔ ایسے بیانات سے بہت سی غلطی فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ میرے خیال میں اس دورے سے وہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں اور دونوں ممالک میں تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان اس مسئلے پر یقیناً بیجنگ سے مشورہ کرے گا کیونکہ دونوں ممالک بین الاقوامی معاملات میں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔’’
طلعت اے وزارت کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل غیر منطقی ہے کہ عمران خان کو حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر اس دورے کو ملتوی کر دینا چاہیے تھا، ‘‘اگر عمران خان یہ دورہ ملتوی کر دیتے تو پیغام یہ جاتا کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ ایسی صورت میں وہ ملک میں سرمایہ کاری کیسے لا سکتے تھے۔ کوئی بھی خراب حالات میں سرمایہ کاری کرنا نہیں چاہتا، تو میرے خیال میں دورہ ملتوی نہ کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ تھا۔’’ لیکن مخالفین کے خیال میں خان صاحب کو اس دورے سے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ ایک طرف وہ امریکا کے قریبی اتحادی سعودی عرب سے مختلف معاہدے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ چین کو دانہ ڈال رہے ہیں، جو آسان نہیں ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سنٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سرفراز خان کے خیال میں خان صاحب خالی ہاتھ گئے تھے اور خالی ہاتھ آئیں گے،‘‘دنیا میں کئی ممالک سعودی عرب اور امریکا کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے ہیں لیکن آپ ایک طرف ریاض کو خطے میں لانا چاہتے ہیں، جس پر چین اور ایران کے تحفظات ہیں اور دوسری طرف آپ چین سے پیسے بھی مانگتے ہیں۔ اسلام آباد کے ریاض کے ساتھ معاہدے اور سرمایہ کاری کی باتوں کو بیجنگ اور تہران میں تشویش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔’’ وہ مزید کہتے ہیں کہ،‘‘ چین کے سعودی سرمایہ کاری پر تحفظات ہیں، جو عمران خان دور نہیں کر سکے، اسی لیے مشترکہ اعلامیے میں چین نے کوئی پیسے یا سرمایہ کاری کا وعدہ نہیں کیا۔ چین کی طرف سے سرمایہ کاری اور مالی امداد کی باتیں صرف پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ہیں، چینی میڈیا میں ایسی کوئی باتیں نہیں کیں۔ تو میرے خیال میں عمران خان کا یہ دورہ سود مند نہیں رہا۔’’ پاکستان مسلم لیگ نون اس دورے کو اشتہاری مہم قرار دے چکی ہے، جس کا مقصد عمران خان کی طرف سے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ صاف ستھرے اور بقیہ سب بد عنوان ہیں۔