لاہور: (دنیا نیوز) سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید نے کہا ہے کہ یو ٹرن اور لچک میں بہت فرق ہے، یو ٹرن یہ ہے کہ اپنا موقف ہی بدل لیا جائے، جبکہ لچک کا مطلب حکمت عملی تبدیل کرنا ہے۔
پروگرام ’’تھنک ٹینک‘‘ میں میزبان عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان بہانہ بنا رہے ہیں، انہوں نے کتنی بار ایک پالیسی بنائی اور اس کو بدل دیا۔ معروف تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا کہ اگر یوٹرن کا مطلب حالات کے مطابق لچک دکھانا ہے تو یہ اچھی چیز ہے۔ ہمیں غیر لچکدار نہیں ہونا چاہئے۔ عمران خان نے ہٹلر اور نپولین کے نام لئے ہیں، ہٹلر اور نپولین نے اپنی جنگ حکمت عملی میں یو ٹرن لئے تھے ان کی تباہی کی داستان میں یو ٹرن کا بڑا حصہ ہے، اپنے اہداف میں یکسوئی ہونی چاہئے، سیاست، جنگ اور عشق میں ہدف واضح ہونا چاہئے۔
سیاسی تجزیہ کار،روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ عمران خان باقی لیڈروں سے مختلف لیڈر ہیں، ان کا بیان دیکھ کر مجھے بہت مایوسی ہوئی ہے عمران خان جو کچھ کہتے رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی بنیاد سے اکھڑ چکے ہیں۔ آصف زرداری نے ایک بار کہا تھا وعدے قرآن و حدیث نہیں ہیں عمران خان آج زرداری کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں وہ کہتے ہیں یو ٹرن کوئی گناہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے معاملات میں حکومت کو لچک پیدا کرنی ہوگی۔
تجزیہ کار، اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیوروچیف خاور گھمن نے کہا کہ میں آج وزیر اعظم سے ہونے والی ملاقات میں موجود تھا۔ وزیر اعظم سے سوال کیا گیا تھا کہ ان کے اردگرد جو لوگ ہیں وہ ان کو صحیح مشورے نہیں دے رہے۔ آئی ایم ایف اور ناصر درانی کے معاملے پر یوٹرن سے متعلق سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ ایک تو ہم نئے ہیں اور ہم سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں ایک راستے پر جا رہا ہو ں اور آگے دیوار آگئی ہے تو میں کیا کروں ؟ یا اس دیوار سے ٹکر ماردوں یا یو ٹرن لے کر دوسرا راستہ اختیار کروں۔ ہٹلر اور نپولین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہٹلر روس میں گیا اور پھنس گیا، اس کے جرنیلوں نے کہا موسم ٹھیک نہیں ہمیں واپس چلے جانا چاہئے لیکن ہٹلر اڑ گیا اور اس کو مار کھانا پڑی۔ خاور گھمن نے کہا کہ اگر کہیں یو ٹرن لے کر منزل کی طرف آسانی سے پہنچ سکتے ہیں تو اس میں کوئی بری بات نہیں۔ نظر منزل پر ہونی چاہئے، یہ وقت بتائے گا کہ عمران خان کتنے دیانتدار ہیں۔