لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی 100 روزہ کارکردگی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں کرپشن کے خاتمہ، منی لانڈرنگ کی روک تھام، ٹیکس ریفارمز، سیاحت کیلئے اصلاحات اور تعلیم، صحت بارے اقدامات پر اعلانات کا اعادہ اس طرح کیا جیسا کہ انہوں نے اپنی حکومت کے قیام کے بعد ان ایشوز کو اجاگر کرتے ہوئے اس پر مؤثر عمل درآمد کا عزم ظاہر کیا تھا۔
اہم ایشوز کے حل کیلئے ٹاسک فورسز کے قیام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کرنا بہت کچھ چاہتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ آخر وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے عزائم کیونکر پورے نہیں ہو رہے۔ ان کی جانب سے آنے والے اعلانات پر مؤثر اقدامات ان کی سپرٹ کے مطابق کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ؟ کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ نیب کو وہ زیادہ با اختیار کر سکے ہیں ؟ غربت کا خاتمہ وہ جس انداز میں چاہتے ہیں ممکن ہو پائے گا ؟ یہ امر درست ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو حکومت میں آ کر پتہ چلا کہ مسائل کی سنگینی کیا ہے۔ معیشت کس حال میں ہے۔ خزانہ کتنا خالی ہے اور نئی حکومت کیلئے اور کون سے چیلنجز ہیں وہ خود یہ تسلیم کرتے نظر آ رہے ہیں کہ مجھے حکومت میں آ کر پتہ چلا کہ حالات کیا ہیں۔
ایک منتخب حکومت سے عوام کو یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد کم از کم ان کی ریلیف کیلئے ایسا کوئی اعلان اور اقدام کرے گی جس سے حقیقی طور پر حکومتی تبدیلی کا احساس ہوگا مگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی عزائم اپنی جگہ لیکن عوام کیلئے ریلیف کی بجائے تکلیف بڑھی ہے۔ خصوصاً مہنگائی کے رجحان اور طوفان نے عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت بھی پریشان ہے اور حکمرانوں کے لہجوں اور بیانات میں بھی کسی حد تک تشویش بڑھ رہی ہے۔ حکومت ایک جانب عوام کیلئے ہر حوالے سے بوجھ بڑھا رہی ہے اور ہر گزرتا دن ایک قومی و اجتماعی قربانی کا درس دیا جاتا ہے اور دوسری طرف مسائل کی سنگین تصویر بھی دکھائی جاتی ہے۔ مگر مسائل کے حل کی ٹھوس پیشرفت کہیں دور دور تک دکھائی نہیں پڑتی۔ دراصل عزائم اور گومگو کی کیفیت ہے جو فیصلہ سازی کے میدان میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔
صورتحال ‘‘ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں’’ کے مصداق روزانہ ایک نیا موڑ مڑ جاتی ہے۔ سو روزہ ایجنڈے کے اختتام کے بعد توقع تھی کہ حکومت جو اقدامات اب تک نہ اٹھا سکی کم از کم ان پر ٹھوس پیشرفت کی جانب قدم بڑھائے گی۔ مگر وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا اصل حاصل مزید وعدے اور امیدیں تھیں۔ اس حکومت کا اصل مسئلہ مسائل اور معاملات کی تقسیم اور پورا پورا تخمینہ نہ لگانا ہے اور دوسری جانب ہر سطح پر قول و فعل کا تضاد بھی منزل کی راہ میں رکاوٹ دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر میں کرپشن اور منی لانڈرنگ پر ہوشربا انکشافات تو سننے کو ملے مگر پالیسی کا بیان یا لائحہ عمل بالکل غائب رہا۔ ان سو دنوں کے خاتمے پر حکومت کی جانب سے ملک میں غربت کے خاتمے کے ایک وسیع اور ہمہ گیر پلان کی بازگشت تھی جو بظاہر زبانی جمع خرچ پر ختم ہوئی۔
وزیراعظم نے بجا طور پر یہ تو کہا کہ میری پالیسیاں غریب آدمی کو اوپر اٹھانے کیلئے ہیں مگر 100دن کی حکمرانی کے بعد بھی ان کیلئے قرضے، آسان شرائط، مارکیٹ اور منڈی کا نظام، ان کیلئے سستی کھاد، ادویات، اور اس طرح کی دیگر ضروریات کا عملی پلان نظر نہیں آیا۔