لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) چیئر مین نیب جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ جو کرپشن کرے گا وہی بھرے گا۔ ارباب اختیار کو یہ باور کرانے میں، میں کامیاب ہو گیا کہ احتساب سب کا ہوگا حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن حکومتوں کو احساس نہیں ہونا چاہیے کہ نیب ہماری طرف کیونکر دیکھ رہا ہے۔ چیئرمین نیب کی جانب سے ملک میں موثر احتساب کے حوالے سے عزم کا اظہار یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بلا امتیاز اور شفاف احتساب کے حامی ہیں، اس حوالے سے اپوزیشن حکومت کو یہ باور کرانے کیلئے کوشاں ہے کہ صرف انہیں ہی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت میں موجود کرپٹ عناصر سے صرف نظر برتا جا رہا ہے۔
ملک میں احتساب کا کلچر کیونکر عام نہ ہو سکا۔ کیا نیب کے قوانین میں ترمیم کی ضرورت موجود ہے ؟ اور اگر کوئی نیب پر اثر انداز ہو رہا ہے تو وہ کون ہے ؟ لہٰذا چیئرمین نیب نے اگر موثر احتساب کے حوالے سے حقیقت پسندانہ طرزِ عمل اختیار کیا ہے تو وہ بتائیں کہ کون نیب کی حیثیت پر اثر انداز ہو رہا ہے ؟ کیوں ہو رہا ہے ؟ اور کون ہے جس پر ہاتھ پڑنے پر ان کے بجٹ پر کٹ لگا دیا گیا ؟ لہٰذا پہلے تو چیئرمین نیب پورا سچ بولیں اور قوم کو اعتماد میں لیں کہ کس کا احتساب کرنا چاہتے تھے کہ ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش ہوئی اور کیا انہوں نے ہاتھ جھٹکنے کی کوشش کی۔ ہماری سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ ادارے تو بنے لیکن کرپشن کے سدباب کے بجائے کرپشن ’ لوٹ مار میں اضافہ ہوا۔
نئے کیس کھلنے کے بجائے کیس بند ہوتے گئے۔ قومی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ بیورو کریسی میں کرپٹ عناصر اربوں کی کرپشن کر کے ’ کروڑوں دے کر احتسابی پھندے سے نکل جاتے ہیں جبکہ ملک میں سول ملٹری غیر متوازن صورتحال میں ملک کے احتسابی ادارہ کو اقتدار’ بدعنوانی ’ کرپشن اور لوٹ مار کی بجائے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ورغلانے اور انہیں بلیک میل کر کے ملکر سیاسی نظام کو درہم برہم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ 2018 کے انتخابات کے بعد ملک کی سیاسی تقدیر نے بظاہر پلٹا کھایا ہے تو پھر نیب نے بھی کرپشن کے خلاف اپنی تدبیر بدلی ہے۔ یہ پہلے والے نیب سے بالکل برعکس ایک نیا احتسابی ادارہ بن چکا ہے جو ہمہ وقت کرپشن کے خلاف صف آراہے ۔ حکومت اگر احتساب چاہتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کے اندر ایک موثر اور بلا امتیاز احتساب کیلئے قانون پیش کر دے اور تمام سیاسی جماعتوں سے دستِ تعاون طلب کرے تا کہ ملک میں احتساب کا وہ یکطرفہ پیمانہ ختم ہو جس سے سیاسی انارکی بڑھ رہی ہے۔
محض دو روز پہلے ہی چیئر مین نیب نے خطرے کی گھنٹی یہ کہہ کر بجا دی کہ ہم نے ایک حکومتی شخصیت کے احتساب کی ٹھانی تو حکومت نے ہمارے بجٹ میں کمی کر دی۔ یہ صورتحال ایک ایسے وزیراعظم کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو اداروں کے فعال ہونے کی بات کرتا ہے اور جس کی ساری سیاسی عمارت کرپشن کے خلاف جدوجہد کے نعروں پر کھڑی ہے۔