لاہور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا میرا متحان شروع ہو چکا، نتیجہ ریٹائرمنٹ کے بعد نکلے گا، قوم کی خدمت کیلئے 3 گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا، کیا پانی کی قلت کے معاملے پر بات کرنا غلط ہے ؟ کیا صاف پانی کے مسئلے پرازخود نوٹس میرے اختیار میں نہیں آتا ؟۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا دوران ملازمت فرائض ایمانداری سے ادا کئے، ہر مقصد نیک نیتی سے بھرپور رہا، پوری زندگی انصاف کیلئے کام کیا، سندھ اور پنجاب کے ہیلتھ سسٹم میں بہتری آئی ہے، کے پی کے ہیلتھ سسٹم میں بہتری نہیں آسکی، کے پی میں جو کرنا چاہتا تھا ہیلتھ کے شعبے میں نہیں کر پایا۔ انہوں نے کہا طالبات کی بڑی تعداد منشیات کی عادی ہے، اربوں روپے نجی ہسپتالوں سے لے کر والدین کو واپس دلوائے، ملک کا ہر فرد ایک لاکھ 25 ہزار کا مقروض ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا میرا ہر مقصد نیک نیتی سے بھرپور رہا، لوگوں کے مسائل کی وجہ سے میں جدوجہد کر رہا ہوں، پیشہ ورانہ زندگی میں خلوص نیت سے ذمے داری نبھانا اصل خدمت ہے، میں نے ایمانداری کو ہمیشہ نصب العین بنایا۔ انہوں نے کہا اپنی پوری زندگی میں انصاف کے حصول کیلئے کام کیا، بلوچستان گیا تو پتہ چلا سب سے بڑے ہسپتال میں آئی سی یو نہیں تھا، 2 ہزار پیرا میڈیکس کچھ روز سے ہڑتال پر تھے، مجھے مشورہ دیا گیا بلوچستان نہ جائیں پیرا میڈیکس ہڑتال پر ہیں، میں بلوچستان گیا اور پیرا میڈیکس کا ایک ایک جائز مطالبہ پورا کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ مجھے ملک کے ہر کالج، ہر ہسپتال کے ساتھ محبت ہے، میری محبت یکطرفہ نہیں، دو طرفہ ہے، پرائیویٹ کالجز میں فیس کی مد میں کروڑوں روپے لیے جا رہے ہیں، کئی کئی کروڑ روپے لے کر ہسپتالوں کا الحاق کیا گیا۔ انہوں نے کہا میرا مشن تھا کہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے اقدامات کروں، پرائیویٹ کالجز میں ڈاکٹرز پیدا نہیں کیے جا رہے، پرائیویٹ کالجز سے پڑھ کر آنے والے ڈاکٹرز بلڈ پریشر چیک نہیں کرسکتے، میرا امتحان شروع ہوچکا ہے، اس کا نتیجہ میری ریٹائرمنٹ پر نکلے گا، اپنے دور میں ملک میں ترقی لانے کی بھرپور کوشش کی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کہا نجی میڈیکل کالج اور ہسپتال تربیت گاہ نہیں، بزنس ہاؤس بن گئے، عدلیہ نے کسی ہسپتال کی مینجمنٹ میں مداخلت نہیں کی، جہاں غلطیاں تھیں انہیں ٹھیک کرنے کے اقدامات کیے۔