لاہور: (روزنامہ دنیا) افغانستان میں قیام امن کے بڑھتے امکانات کے پیش نظر طالبان نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں کہ وہ 1990 کی دہائی کے برعکس تبدیل ہو چکے ہیں۔ طالبان نے اپنے دور میں لڑکیوں کی تعلیم اور موسیقی پر پابندی لگا دی تھی، کابل کے فٹ بال سٹیڈیم میں سرعام پھانسی دیا کرتے تھے۔
طالبان کے ترجمان ذبیج اللہ مجاہد نے رائٹرز کو بتایا کہ اگر امن قائم اور طالبان واپس آتے ہیں تو واپسی 1996 کی طرح سخت نہیں ہو گی۔ وہ افغانیوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان کی جانب سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ وہ افغانستان میں غیر ملکی فوج کی موجودگی کے مخالف ہیں۔ اگر غیر ملکی فوج نکل اور امن ڈیل طے پا جاتی ہے تو پھر ملکی سطح پر عام معافی کا اعلان کیا جائے گا۔ پولیس، فوج اور سرکاری اہلکاروں سمیت کسی کو انتقامی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ رائٹرز کے مطابق افغانستان میں فیصلہ کن تبدیلی کی توقعات بڑھنے کی وجہ غیر مصدقہ رپورٹس ہیں کہ امریکہ افغانستان سے 5000 فوجی واپس بلا سکتا ہے۔ ان رپورٹس سے افغان شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جن کے ذہن میں طالبان دور کی تلخ یادیں زندہ ہیں۔
افغانستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے ترجمان بلال صدیقی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان کی ذہنیت بدل گئی ہے، تاہم ممکن ہے کہ انہیں احساس ہو گیا ہو کہ انسانی حقوق کے احترام کے بغیر عالمی برادری کیلئے وہ قابل قبول نہیں۔ آئندہ کئی سال تک افغانستان کا غیر ملکی امداد پر انحصار رہنے کا امکان ہے، طالبان جانتے ہیں کہ ماضی کی طرح ان کی واپسی ممکن نہیں۔ جنگ کے خاتمے کے خواہشمند افغانیوں کی بڑی تعداد طالبان کے نرمی کے دعوے شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ جون کی تین روزہ جنگ بندی میں طالبان رہنما اپنے جنگجوؤں سے فوجیوں اور سرکاری اہلکاروں کیساتھ سیلفیاں بنوانے، شہریوں کیساتھ آئس کریم کھانے پر سخت ناراض ہوئے تھے۔ بعدازاں انہوں نے افغان فورسز کو بے دخل کرنے کیلئے سٹریٹجک اہمیت کے صوبوں پر حملے کئے اور شہریوں کو بطور ڈھال استعمال کیا۔
ایک پولیس اہلکار عبدل نے بتایا کہ طالبان نے اگر پرانا انداز اختیار کیا تب ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ حکومت جو بھی فیصلہ کرتی ہے، وہ اس کی حمایت کرینگے ۔ مستقبل سے وہ مایوس نہیں۔ طالبان بھی پرانے جیسے نہیں رہے، ہم نے ان میں تبدیلیاں دیکھی ہیں، وہ بھی جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔ طالبان جوکہ بظاہر پشتون تحریک ہے، ملک کے جنوب اور مشرق علاقوں میں مضبوط ہیں، وسیع دیہی علاقے پر ان کا کنٹرول ہے، جہاں وہ ٹیکسوں کے نفاذ کے علاوہ عدالتیں لگاتے اور تعلیم کو کنٹرول کرتے ہیں۔ قدامت پسند دیہی افغانوں کی نظر میں طالبان کی حکمرانی کا مطلب استحکام کے علاوہ بے رحمانہ سزائیں اور خواتین کے حقوق پر سخت کنٹرول ہے، جوکہ کئی علاقوں کی روایات کے عین مطابق ہے۔ ضلع اقتاش جوکہ طالبان کا گڑھ ہے، کی بعض خواتین نے بتایا کہ وہ آزادی سے گھوم پھر سکتی ہیں، انہیں چہرے سمیت برقع میں خود کو چھپانا نہیں پڑتا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ وہ سرکاری اداروں میں خواتین کے کام کرنے یا گھر سے باہر کی سرگرمیوں کے خلاف نہیں، وہ صرف ان ملبوسات کے پہننے کے خلاف ہیں جن کا ہمارے ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نائب ترجمان نے کہا کہ انسانی حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے، طالبان کو سخت گیری کا تاثر ختم کر کے قومی آئین تسلیم کرنا ہو گا۔ انہوں نے طالبان میں تبدیلی کی علامات دیکھی ہیں، مگر انہیں اپنے اقدامات سے ظاہر کرنا ہو گا کہ وہ درحقیقت بدل چکے ہیں۔ کئی حلقوں کو یقین ہے کہ 2001 کے بعد ملک نے جو کچھ حاصل کیا، طالبان کی واپسی سے وہ سب خطرے میں پڑ جائیگا۔ خواتین کو کام یا تعلیم اور شمالی و وسطی افغانستان کے تاجک، ازبک اور ہزارہ گروپوں کو قائل کرنے کیلئے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبہ بلخ کے ضلع چمتال کی سکول ٹیچر مالینا حمیدی نے کہا کہ طالبان کے تبدیل ہو جانے کے بیانات محض بہانے ہیں جنہیں طالبان خود کو قابل قبول بنانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں 100 فیصد یقین ہے کہ طالبان کو جیسے ہی اقتدار ملا، وہ 1990 کی دہائی والے طالبان ہی ثابت ہونگے۔