لاہور: (روزنامہ دنیا) گرینڈ حیات ہوٹل کے کروڑوں روپے کے مہنگے فلیٹس کے کم از کم 50 کے قریب مالکان مبینہ طور پر ٹیکس نادہندہ نکلے، ٹیکس چھپانے والے مالکان نے اسلام آباد کے گرینڈ حیات میں تقریباً 2 ارب روپے کے مہنگے فلیٹس خرید رکھے ہیں۔ منصوبے کے ٹھیکیدار نے اپنی اور شراکت داروں کی 3 کمپنیوں کو بھی 30 کروڑ کے 14 مہنگے فلیٹس دے دیئے۔
دنیا کو موصول سرکاری دستاویزات کے مطابق 40 کے قریب فلیٹس مالکان ایف بی آر کے ساتھ ٹیکس کیلئے رجسٹرڈہی نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک درجن کے قریب ایسے خریداروں کا بھی معلوم ہوا ہے جنہوں نے کئی سال گزرنے کے باوجود ٹیکس گوشواروں میں اپنے ان فلیٹس کو ظاہر ہی نہیں کیا۔ جو خریدار ابھی تک ٹیکس حکام کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی ٹیکس دیتے ہیں لیکن مہنگے ترین فلیٹس کے مالک ہیں ان میں عامر مگسی 5 کروڑ روپے سے زائد کی مالیت کا ایک فلیٹ C04A، محمد افضل ساون تین کروڑ 50 لاکھ کا ایک فلیٹ C03B، سکینہ گل نواز 4 کروڑ کا ایک فلیٹ C01B، محمد شعیب بیگ 3 کروڑ سے زائد کا ایک فلیٹ C05E، امتیاز خان 3 کروڑ سے زائد کا ایک فلیٹ C06E، آمنہ پراچہ 4 کروڑ کا ایک فلیٹ C09B، نبیلہ خان 80 لاکھ کا ایک فلیٹ B01D، فرحت محمود ایک کروڑ 10 لاکھ کا فلیٹ B04G، جہانگیر خان 3 کروڑ 30 لاکھ کا فلیٹ B05A، ڈاکٹر مطیب مکرم شاہ ایک کروڑ 80 لاکھ کا فلیٹ B05B، ڈاکٹر جاوید احمد 2 کروڑ کا فلیٹ B07E، شاہد محمود 2 کروڑ کا فلیٹB07F، عرفان اﷲ خان ایک کروڑ کا فلیٹ B07G، صاحبزادہ آصف محمود ایک کروڑ 80 لاکھ کا فلیٹ B10B ، محمد نجیب خان ایک کروڑ 10دس لاکھ کا فلیٹ B11G ، اشماء اماد 85 لاکھ کا فلیٹ B14C ، عائشہ ندیم 5 کروڑ سے زائد مالیت کا فلیٹB14F ، ایذد ایوب 6 کروڑ 40 لاکھ کا فلیٹ B16C ، واجد حسین 2 کروڑ 40 لاکھ کا فلیٹ C17B ،رحمن ڈھلوں4 کروڑ 40 لاکھ کا فلیٹC13A، ڈاکٹر اجمل ملک 7 کروڑ 84 لاکھ کا فلیٹ B17A، عبد الوحید 2 کروڑ کا فلیٹ B12C، احمد مصطفی جیلانی ایک کروڑ 50 لاکھ کا فلیٹ B03B، سہیل درانی 85 لاکھ کا فلیٹ B05F، پروین رشید 7 کروڑ کا فلیٹ C16C، حبیب الرحمن کا فلیٹ C17A، مس بشریٰ رحیم خان ایک کروڑ سے زائد کا فلیٹ B12F اور ماہ رخ علی/زویا علی 85 لاکھ کے ایک فلیٹ C19C کی مالک ہیں۔
اسی طرح ایک درجن کے قریب ایسے خریداروں کا بھی سراغ لگایا گیا ہے جنہوں نے ان فلیٹس کو اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا، ان میں پاکستان مسلم لیگ کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر برجیس طاہر کے صاحبزادے ثاقب برجیس کے ایک کروڑ سے زائد مالیت کے دو فلیٹس C18A اور C19B ہیں لیکن انہوں نے اپنے 2017 تک کے ٹیکس گوشواروں میں انہیں ظاہر نہیں کیا۔ سجاد سلیم ہوتیانہ سابق چیف سیکرٹری سندھ اور گلگت بلتستان جو آج کل ممبر پنجاب پبلک سروس کمیشن تعینات ہیں نے 2013 میں ایک کروڑ 80 لاکھ کا فلیٹ B19D خریدا مگر ٹیکس سال 2017 تک ڈکلیئر نہیں کیا، ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122 کے سربراہ ڈاکٹر رضوان نصیر اور ان کے بھائی نعمان نصیر کے 3 کروڑ40 لاکھ کے دو فلیٹس C06G اور C07G 2013 سے خریدے گئے مگر ٹیکس سال 2017 تک انہیں ڈکلیئر نہیں کیا گیا تھا، نازیہ عامر کا 2 کروڑ 70 لاکھ کا فلیٹ C06F، ڈاکٹر اسجد حمید 3 کروڑ کا فلیٹ C13E، گل رخ اظہر 2 کروڑ 50 لاکھ کا فلیٹ C06B ، عائشہ اقبال خان 3 کروڑ 20 لاکھ کا فلیٹ C08E، طاہرہ سواتی ایک کروڑ کا فلیٹ C16A اور شبنم نوید 2014 سے فلیٹ B17D کی مالک ہیں مگر ٹیکس گوشواروں میں انہیں ظاہر نہیں کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کچھ ایسے لوگوں کا بھی پتہ چلا ہے جنہوں نے یہ فلیٹس تو کئی سال قبل خریدے مگر ٹیکس دیناکچھ ماہ قبل ہی شروع کیا ان میں نعیم چاولہ نے 2012 میں1 کروڑ 70 لاکھ کے دو فلیٹ B07C اور B08C خریدے مگر ایف بی آر کو دسمبر 2017 میں ٹیکس دینا شروع کیا، سلیمان خان نے 2013 میں 5 کروڑ 60 لاکھ سے زائد میں ایک فلیٹ B20A خریدا مگر ایف بی آرکو مئی 2018 میں ٹیکس دینا شروع کیا، ذوالقرنین شاہ سیدنے 2015 میں کروڑوں روپے کا فلیٹ B10E خریدا مگر ایف بی آ ر کو جون 2018 میں ٹیکس دینا شروع کیا۔
احسن عظیم/نادیہ عظیم نے 2014 میں4کروڑ کا ایک فلیٹ C07A خریدا مگر جنوری 2019 میں ٹیکس دینا شروع کیا اور ثروت ذیشان لودھی نے 2013 میں 2 کر وڑ 20 لاکھ کا ایک فلیٹ B03E خریدا مگر مئی 2018 میں ٹیکس دینا شروع کیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 30 کروڑ کے 14 فلیٹس تین کمپنیوں میسیرز ٹرائی ٹیکس پرائیوٹ لمیٹڈ، اسٹیٹ ون پرائیوٹ لمیٹڈ اور بسم اﷲ ٹیکسٹائل لمیٹڈ کی ملکیت ہیں اور یہ کمپنیاں بی این پی پرائیویٹ لمیٹڈکے مالک اور گرینڈ حیات منصوبے کے ٹھیکیدار عبد الحفیظ شیخ اور ا ن کے شراکت داروں کی ہیں۔تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا یہ 14 فلیٹس بھی ان کمپنیوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیے ہیں یا نہیں۔ کئی مرتبہ رابطہ کرنے کے باوجود سجاد سلیم ہوتیانہ موقف کیلئے دستیاب نہیں تھے جبکہ دوسری طرف ستمبر 2018 میں جب ڈاکٹر رضوان نصیر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا یہ فلیٹس انکے والد نے خریدے تھے اور انہیں ابھی والد سے ملے ہیں اس لیے ڈکلیئر نہیں کیے لیکن اگلے سال ڈکلیئر کر دیں گے۔ جب رضوان نصیر سے کچھ دن قبل دوبارہ رابطہ کیا گیا تو انکا دعویٰ تھا کہ انہوں نے دونوں فلیٹس ٹیکس حکام کے سامنے ڈکلیئر کردیئے ہیں۔ بعض خریداروں نے دنیا نیوز کو بتایا کہ جب تک انہیں انکے فلیٹس کا قبضہ نہیں مل جاتا تب تک ان پر لازم نہیں کہ وہ ڈکلیئر کریں۔