لاہور: (روزنامہ دنیا) بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل ) کے بعد بلوچستان اور مرکز میں پی ٹی آئی کی سب سے بڑی اتحادی پارٹی 'باپ' بھی نظر انداز کئے جانے پر پی ٹی آئی سے خفا ہوگئی، بلوچستان عوامی پارٹی نے موجودہ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرکزی حکومت سے کابینہ میں مزید 'حصہ' مانگنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ وزیراعلیٰ جام کمال نے اراکین قومی اسمبلی و سینیٹرز پر مشتمل کمیٹی کو پی ٹی آئی قائدین سے ملکر بی اے پی کے تحفظات سے آگاہ کرنے کی ہدایت کر دی۔
وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت یہاں بلوچستان ہاؤس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وفاقی وزیر زبیدہ جلال سمیت پارٹی کے سینیٹرز انوار الحق کاکڑ، سرفراز بگٹی، میر اسرار ترین، نوابزادہ خالد مگسی اور اراکین قومی اسمبلی بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں بعض سینیٹرز کی جانب سے وفاق میں بی اے پی کونظر انداز کئے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا جس پر اجلاس میں ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو تحریک انصاف کے مرکزی قائدین سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات سے آگاہ کرے گی۔
اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ مرکزی حکومت بلوچستان سے متعلق پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لے، اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ کمیٹی کے ارکان دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی ملاقاتیں کریں گے اور اس حوالے سے انہیں بھی اعتماد میں لیا جائے گا، باخبر اہل سیاست کا خیال ہے کہ بی اے پی کے مرکز میں پہنچنے والے بعض ارکان قومی اسمبلی و سینیٹر ز کی خواہش تھی کہ انہیں مرکزی کابینہ یا سٹینڈنگ کمیٹیوں میں ایڈجسٹ کیا جائے اور اس حوالے سے وہ اپنی قیادت پر بھی دباؤ ڈالتے رہے تاہم کچھ نہ بن سکا، اب موجودہ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی اے پی کے ارکان سینیٹ و قومی اسمبلی نے اپنے مطالبے کو پھر سے اپنی قیادت کے سامنے رکھا اور صوبے کے منتخب ارکان کو مرکز میں نظرانداز کرنے کی پالیسی پر اپنے تحفظات اور خفگی کا اظہار کرڈالا، اب دیکھنا یہ ہے پی ٹی آئی اپنی اتحادی بی اے پی کو کس کے ذریعے رام کرنے میں کامیاب ہوگی۔