لاہور: ( روزنامہ دنیا ) کیا مسلم لیگ ق ، تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کوئی خطرہ بننے جا رہی ہے یا یہ صرف پانی میں ابال ہے جو کسی دباؤ کے لیے استعمال کیا جانا مقصود ہے، یا کسی اشارے پر استعمال ہونے کی منصوبہ بندی، واضح رہے کہ گزشتہ روز مسلم لیگ ق کی اعلیٰ قیادت کا ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں شرکا نے حکومت کے اتحادی رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے فیصلے کا اختیار چودھری شجاعت کو دے دیا، اعلیٰ حکومتی اور تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق معاملہ اتنا بڑا تو نہیں کہ ق لیگ اس طرح کا مشاورتی اجلاس بلا کر حکومت میں شامل رہنے کا جائزہ لے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ اسے کسی سازش کا حصہ تو نہیں سمجھتے، کیونکہ معاملات اتنے بھی سنگین نہیں ہیں جبکہ چودھری شجاعت ایک زیرک سیاستدان ہیں البتہ یہ ق لیگ کی جانب سے تحریک انصاف یا وزیر اعظم کو دباؤ میں رکھنے کی حکمت عملی ہو سکتی ہے، ذرائع کے مطابق وزیراعظم یقینی طور پر صورتحال کو بگڑنے نہیں دیں گے، قطر کے دورے سے واپسی پر چودھری شجاعت سے ملاقات کر کے ان کو نہ صرف اعتماد میں لیں گے بلکہ ان کے تحفظات بھی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیرا عظم کو آج کی پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے ق لیگ کے مشاورتی اجلاس اور اس کی کارروائی کے بارے میں بریف کر دیا گیا ہے جس پر وزیر اعظم نے اپنی اتحادی جماعت کے تحفظات کے خاتمے کے لیے چودھری برادران سے جلد ملاقات کا اشارہ دیا ہے۔
دوسری جانب ق لیگ کے اجلاس سے ظاہر ہے کہ وہ تحریک انصاف کے وزرا کے بیانات کو ہلکا لینے پر تیار نہیں اور اس حوالے سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ کر چکی ہے، اس کی فوری وجہ کے بارے میں حتمی قیاس آرائی تو ممکن نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ق لیگ مقتدر حلقوں کی بی ٹیم کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔ ق لیگ کی اس قدر ناراضی کہ 5 ماہ میں ہی حکومت سے ساتھ اتحاد کا جائزہ لے لیا جائے کی کوئی بڑی وجہ نظر نہیں آتی، واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت 183 ووٹوں پر قائم ہے جس میں ق لیگ کی 5 نشستیں بھی شامل ہیں ، ق لیگ کے ساتھ ساتھ حکومت کی ایک اور اتحادی بی این پی ( مینگل ) اکھڑی اکھڑی دکھائی دے رہی ہے جبکہ وزیر اعظم جو اس وقت ملک کے اقتصادی استحکام کی جانب سے اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ان کے لیے فی الحال بلوچستان کے گھمبیر مسائل پر توجہ دینا ممکن نہیں ایسے میں بی این پی ان کے ساتھ کتنا عرصہ چلے گی، اس بارے میں بھی کچھ کہنا ممکن نہیں، ایسی صورتحال میں ان دونوں جماعتوں کی حکومت سے ناراضی ایک بالکل نئے وزیر اعظم کے لیے جو پہلی دفعہ اقتدار میں آیا ہو کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دی جا سکتی ، ان دونوں جماعتوں کا قومی اسمبلی میں مجموعی ووٹ 9 ہے ، ان کے بغیر حکومت کی قومی اسمبلی کے ایوان میں اکثریت صرف دو ووٹوں کی رہ جاتی ہے جو 174 بنتی ہے جبکہ حکومت سازی کے لیے 172 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم اس صورتحال کو کیسے سنبھالیں گے اور کب تک ان اتحادیوں کو اپنے ساتھ چلا پائیں گے، اس کے لیے انہیں کتنے سمجھوتے کرنے پڑیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اس بارے میں فوری طور پر کوئی نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آنے والا وقت حکومت کے لیے بہت ٹف اور کٹھن ہو گا۔