لاہور: (دنیا نیوز) سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں کو اسلام آباد بلانے پر ایوانِ صدر، سینیٹ ترجمان اور قائمہ کمیٹی داخلہ سمیت پولیس کے الگ الگ مؤقف سامنے آگئے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کو وفاقی دارالحکومت بلانے کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔
سانحہ ساہیوال پر تحقیقات پہلے روز سے پیچیدگی کا شکار ہو گئی ہے، جس میں پیش رفت کم اور سیاست زیادہ ہو رہی ہے، لواحقین کو اسلام آباد بلائے جانے کا معاملہ بھی متنازع ہو گیا ہے۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک نے کہا کہ اہلخانہ کو بلانے کیلئے باضابطہ نوٹس جاری ہی نہیں کیا۔ آئندہ ہفتے بلایا جائے گا۔
معاملے پر رحمان ملک نے کہا کہ کمیٹی نے پہلے ہی دن جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا تھا، شیخ رشید کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے، انکا کہناتھا، ایسا لگتا ہے انہوں نے محکمہ انکشافات سنبھال لیا ہے۔
اس سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان کا کہنا تھا رحمان ملک نے ذیشان کی والدہ اور خلیل کے بھائی کو بلایا تھا، مگر وقت نہ ہونے کے باعث ملاقات نہیں کی گئی جبکہ اسلام آباد بلانے پر لواحقین نے بھی غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب سانحہ ساہیوال کی تحقیقات سست روی کا شکار ہے، فرانزک ایجنسی کا کہنا ہے صرف گولیوں کے خول پر رپورٹ نہیں بن سکتی، رائفل کا ہونا لازمی ہے۔ ایجنسی نے محکمہ داخلہ پنجاب کو پیر تک تمام شواہد دینے کی ڈیڈ لائن دے دی۔
سانحہ ساہیوال کی تفتیش میں اب تک کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ محکمہ داخلہ پنجاب کو پیر تک تمام شواہد دینے کی ڈیڈ لائن دے دی گئی۔ فرانزک سائنس ایجنسی نے محکمہ داخلہ پنجاب کو خبر دار کیا ہے کہ صرف گولیوں کے خول پر رپورٹ نہیں بن سکتی جس رائفل سے گولیاں چلیں اس کا ہونا لازمی ہے، گاڑی پر بظاہر گولیوں کے 50 نشانات موجود ہیں۔
فرانزک سائنس ایجنسی کو نامکمل شواہد بھیجنے کا انکشاف ہوا تھا۔ سانحہ میں ملوث 5 اہلکار سی ٹی ڈی ہی کی تحویل میں ہیں جنہیں ابھی تک خصوصی عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکا۔ جے آئی ٹی کے مطابق ملزمان کو جے آئی ٹی تحویل میں لئے جانے کے بعد پیش کیا جائے گا۔ گرفتار 5 ملزمان میں سب انسپکٹر صفدر حسین، اہلکار محمد رمضان، حسنین اکبر، احسن خان اور سیف اللہ شامل ہیں۔