قابل اور تعلیم یافتہ وزرا

Last Updated On 01 February,2019 06:51 pm

”میں لوگوں سے یہ کہتا ہوں کہ مجھ سے تب پوچھنا جب آپ میری ٹیم دیکھو گے،پاکستان کی بیسٹ ٹیم آپ کے سامنے لے کر آﺅں گا جو نیا پاکستان بنائے گی۔ سارے بہترین لوگ میرٹ پر لے کر آئیں گے اور ان کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں کر سکے گا، اداروں کا سربراہ کوئی عام وزیر نہیں بلکہ قابل شخص ہوگا“۔

عمران خان نے یہ الفاظ انتخابی مہم کے دوران ایک عوامی جلسے میں کہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب عوام کو سنہرے خواب دکھائے جا رہے تھے اور ہر شہری اپنی سوچ کے مطابق ایک نئے پاکستان کا تصور قائم کر چکا تھا۔

انتخابات ہوئے، حکومت بنی اور کپتان نے اپنے وزرا کی ٹیم کا اعلان کر دیا۔ اس ٹیم کا جس کے بارے میں کپتان کا کہنا تھا کہ انتہائی تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور قابل لوگ ہیں اور ماضی کی حکومتوں سے بہت بہترین ٹیم ہے۔


کپتان کے اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے، اس کا اندازہ ٹیم کے اراکین کے الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے گئی اپنی تعلیمی دستاویزات سے لگایا جا سکتا ہے۔

موجودہ وفاقی کابینہ میں 18 وزرا ایم اے یا اس کے مساوی اور 14 وزرا بی اے کی اسناد رکھتے ہیں۔ وزارت خارجہ شاہ محمود قریشی کے پاس ہے جن کی تعلیمی قابلیت بی اے ہے جبکہ ماضی میں یہ وزارت خواجہ آصف کے پاس تھی جو بی اے، ایل ایل بی تھے۔

وزارت داخلہ عمران خان کے پاس ہے جو پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر ہیں جبکہ سابقہ وزیر داخلہ چودھری نثار ایم ایس سی تھی۔ وزیر دفاع پرویز خٹک بی اے جبکہ سابقہ وزیر خواجہ آصف بی اے، ایل ایل بی تھے۔

موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر ایم بی اے اور سابق وزیر اسحاق ڈار بی کام (گولڈ میڈلسٹ) تھے۔ اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات بی اے کی سند رکھتے ہیں جبکہ مریم اورنگزیب ایم ایس اکنامکس تھیں۔

وزیر ریلوے شیخ رشید اور سابقہ وزیر خواجہ سعد رفیق دونوں ایم اے ہیں۔ موجودہ وزیر پیٹرولیم غلام سرور بی اے جبکہ شاہد خاقان عباسی ایم ایس سی تھے۔

وزیر ٹیلی کمیونی کیشن خالد مقبول صدیقی ایم بی بی ایس جبکہ سابق وزیر انوشہ رحمان ایم اے اور لا یونیورسٹی کالج لندن کی اسناد رکھتی تھیں۔ وزارت انسانی حقوق کی ذمہ دار ڈاکٹر شیریں مزاری اس کابینہ کی سب سے قابل شخصیت ہیں جو پی ایچ ڈی ہیں جبکہ ماضی میں یہ وزارت کامران مائیکل کے پاس تھی جن کی تعلیمی قابلیت بی اے تھی۔

ایل ایل بی کی سند رکھنے والے عامر محمود کیانی اس وقت وزیر صحت اور وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا بھی بی کام کی سند رکھتے ہیں۔ بی کام سے یاد آیا کہ خان صاحب ایک اور رکن اسمبلی علی زیدی ہیں۔

علی زیدی صاحب نے جو الیکشن کمیشن کے پاس تعلیمی قابلیت کا اندراج کرایا ہے وہ بی کام ہے مگر زیدی صاحب نے فارم پر کرتے وقت ”بیچلر آف کامرس “لکھا ہے، البتہ بیچلر کے سپیلنگ جو زیدی صاحب نے درج کیے ہیں وہ انگریزی لغت کے مطابق غلط ہیں۔

بد گمانی نہیں رکھنی چاہیے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ شاید زیدی صاحب کا فارم کسی دوسری قابل شخصیت نے پر کیا ہو۔ یہاں تک تو معاملہ ایسا ہے کہ موجودہ کپتان گزشتہ کپتان سے بہتر ٹیم کا دعویٰ کم از کم تعلیمی قابلیت کے حوالے سے تو پورا نہیں کر سکے۔

اب اگر بات کی جائے گورنرز کی تو سندھ کے لیے خان صاحب کی نظر جس انتہائی قابل شخصیت پر جا کر ٹھہری وہ عمران اسماعیل تھے۔ عمران اسماعیل صاحب نے جو الیکشن کمیشن کے پاس اپنی تعلیمی قابلی ظاہر کی ہے وہ ”انٹرمیڈیٹ، بی کام پارٹ ون“ ہے۔

اس تعلیمی قابلیت کے مطابق تو سندھ کی جامعات کے چانسلر جناب عمران اسماعیل صاحب بی کام پارٹ ون کا امتحان دینگے اور پھر بی کام پارٹ ٹو میں نمودار ہونگے۔

اب ہمیں خان صاحب کی لانگ ٹرم پلاننگ کو سمجھنا چاہیے کہ گورنر صاحب جب بی کام پارٹ ون اور پارٹ ٹو کے امتحانات میں شرکت کریں گے، جامعہ جائیں گے تو ایک تو وہ سمجھ جائیں گے کہ جامعہ کیا ہوتی ہے اور اس کے مسائل کیا ہیں، ایسے فیصلے صرف ایک کامیاب کپتان کی دوربین نگاہیں ہی کر سکتی ہیں۔

اسی طرح خان صاحب جوہر شناسی پنجاب کی گورنر شپ کے لیے جس شخص پر جا ٹھہری وہ تھے سابق سینیٹر چودھری سرور تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سنیٹر رہنے کے باوجود یہ وہ واحد رکن ہیں جن کی تعلیمی قابلیت کا سینٹ کی ویب سائٹ پر اندراج ”دستیاب نہیں“ کی صورت میں موجود ہے۔

چودھری صاحب سے حسد رکھنے والے پروپیگنڈہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چودھری سرور نے انتخابات میں بھی اسی لیے حصہ نہیں لیا کہ کہیں ان کی تعلیمی قابلیت پر حاسدوں کو ہارٹ اٹیک ہی نہ ہو جائے۔

جہاں تک تعلق ہے بلوچستان کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ امان اللہ خان اور کے پی کے شاہ فرمان صاحب کو تو جسٹس صاحب کے نام سے ہی ان کی تعلیمی قابلیت کا پتا چل جاتا ہے جبکہ شاہ فرمان بی ایس سی ہیں۔

تعلیمی قابلیت کے ایسے کرتب صرف کپتان کے وزرا، گورنرز ہی نہیں بلکہ ٹیم کے ٹیل اینڈرز بھی دکھاتے ہیں۔ اب ڈاکٹر عامر لیاقت کو ہی دیکھ لیجئے، محترم اپنے نام کے ساتھ بیسویں صدی سے ہی ڈاکٹر استعمال کرتے ہیں مگر بی اے اور ایم اے انھوں نے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے اختتام پر کیا۔

اب وفاقی اردو یونیورسٹی سے گریجویشن کیسے کی گئی ہے؟ یہ ایک الگ داستان ہے جس کی کہانی آئندہ پر رکھ لیتے ہیں ورنہ تو کراچی کے اخبارات میں اس حوالے سے کافی مواد موجود ہے۔

کپتان کی جوہر شناسی کے اثرات ان کے ساتھیوں میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ اب بزدار صاحب نے جو ٹیم بنائی اس پہ اعتراض کیسا کہ بزدار صاحب تو خود ابھی بننے کے مراحل میں ہیں۔

پنجاب حکومت کے 3 وزرا ( وزیر ٹرانسپورٹ محمد جہانزیب خان، وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ممتاز احمد، لیبر و ہیومن ریسورس انصر مجید خان) انٹرمیڈیٹ ہیں۔ حافظ عمار یاسر کی تعلیم مذہبی ہے اور وہ ”حافظ قران“ ہے۔ پنجاب میں معدنیات کی وزارت سونپی گئی ہے، مگر کامیابی کا سہرا کے پی کے کے کمیونی کیشن اینڈ ورکس کے وزیر اکبر ایوب نے میٹرک کی سند کے ساتھ وزیر بن کر خیبرپختونخواہ کے سر بندھوا دیا۔

بھان متی کا کنبہ جوڑا جائے تو تعلیمی قابلیت کے حوالے سے وزارت دینے کا خواب چکنا چور اور دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ماضی کی روایت کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے وفاقی وزارت صحت ایل ایل بی کی سند رکھنے والے عامر کیانی کو دی دے گئی جبکہ ایم بی بی ایس کی سند رکھنے والے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو ٹیلی کمیونی کیشن اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو پروسیژنل کو آرڈینینشل کی وزارت سونپ دی گئی۔

ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی سند رکھنے والی زرتاج گل کو موسمیاتی تبدیلی کا نگران بنا دیا گیا۔ اسی طرح ایم اے انگلش کی سند رکھنے والی زبیدہ جلال دفاعی پیداوار اور ڈینٹل سرجری کی سند رکھنے والے شبیر علی ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی وزارت سنبھال رہے ہیں۔

تعلیم یافتہ، قابل، باصلاحیت اور بہترین جیسی صفات اپنی ٹیم کے لیے استعمال کرنا شاید خان صاحب کا تکیہ کلام رہا ہو مگر عوام یہ گمان کر بیٹھے تھے کہ شاید جو ٹیم خان صاحب چنے گے ان میں یہ ساری خصوصیات موجود ہونگی۔

کپتان کی موجودہ ٹیم سابقہ کپتانوں کی ٹیموں سے تعلیمی حوالے سے بہتر تو قرار نہیں دی جاسکتی البتہ تجربے میں واضح طور پر کم نظر آتی ہے۔ اب یہ ٹیم ڈیلیور کر سکے گی یا نہیں اس کیلئے ہمیں حکومت چلنے کی صورت میں کچھ وقت تک انتظار کرنا ہوگا۔

(طارق حبیب کا یہ کالم روزنامہ دنیا میں شائع ہوا)