لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) پالیمنٹ میں قانون سازی کا پہیہ جام ہے اور یہ ایک باقاعدہ بحران بن رہا ہے۔ چھ ماہ سے قومی اسمبلی میں کوئی نیا قانون منظور نہیں ہوسکا، صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ شیخ رشید اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے بعد پرسوں وزیر اعظم عمران خان نے بھی سوال اٹھا دیا ہے کہ یہ دنیا کی کیسی جمہوریت ہے جہاں جیل سے آکر ایک آدمی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی چلاتا ہے اور نیب کو طلب کرتا ہے، اس طرح سے عمران خان بھی اس بحث کے اندر شامل ہو گئے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی حکومت شہباز شریف کو پی اے سی کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ کوشش حکومت کو مہنگی پڑ سکتی ہے اور قانون سازی کسی صورت میں نہیں ہوسکے گی اور حکومت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ وہ شہباز شریف کو ہٹانے کے ساتھ اپوزیشن کے ساتھ ایک بڑی جنگ میں ملوث ہو جائے کہا جا رہا ہے کہ یہ بنیادی طور پر شیخ رشید کی پوزیشن ہے اور عمران خان کی حکومت اس میں شامل نہیں ہے۔
اس صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ ہم نے شہباز شریف کو بڑی فراخدلی سے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنایا تھا۔ سندھ میں پی اے سی کا چیئرمین ابھی تک نہیں بنایا گیا اور وہ بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ ہم نہیں بنائیں گے مگر ہم نے شہباز شریف کو بنایا حالانکہ ہمیں بہت سے تحفظات تھے، شہباز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر اور چیئرمین پی اے سی دونوں کوڈھال کے طور پر استعمال کیا، کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی جس کی قید میں ہو اسی سے سوال پوچھے۔ شہباز شریف نے نیب کو طلب کیا اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ سعد رفیق کو بھی بلایا جائے تاکہ وہ بھی نیب پر جرح کر سکیں تا ہم حکومت نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ کیا کرنا ہے۔ لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو استعمال کرنے پرتشویش ہے۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان کی پہلی تقریر میں ہی اپوزیشن نے شور شرابہ کیا، جو کچھ طے ہوا تھا اس کی خلاف ورزی کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے 5 سال اپوزیشن کی، ہم نے کبھی نواز شریف کو تقریر کے دوران نہیں ٹوکا تھا، اپوزیشن نے با رہا طے شدہ چیزوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ جہاں تک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا تعلق ہے اس سے پہلے اتنی بڑی زیادتی نہیں ہوئی، چودھری نثار اور خورشید شاہ بھی پی اے سی کے چیئرمین رہے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ نیب کا ملزم ہی نیب کو طلب کر لے اور اسے تنبیہ کرے۔ برا بھلا کہے یہ کسی پارلیمانی نظام میں نہیں ہے یہ اپنے عہدے کا غلط استعمال ہے۔
شفقت محمود نے کہا کہ اپوزیشن نے جو بھی مانگا اسے دے دیا گیا ہے۔ ہمارے کئی ممبران سمجھتے ہیں کہ سپیکر ضرورت سے زیادہ ان کا خیال رکھتے ہیں ان کو وقت دیتے ہیں اور سب کچھ کرتے ہیں۔ ہمیں تو ایاز صادق نے کبھی بولنے کا موقع تک نہیں دیا تھا پانچ سال میں مشکل سے چند منٹ بولنے کا موقع دیا گیا۔ سپیکر کے بارے میں پی ٹی آئی کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا اسد قیصر ہمارے بانی کارکن ہیں، وہ پارٹی کے سینئر لیڈر ہیں، وہ بڑے مہذب انداز میں وقار کے ساتھ ایوان کو چلا رہے ہیں۔ ہم ان کا بہت احترام کرتے ہیں انہوں نے ایوان کو چلانے کی بہت زیادہ کوشش کی ہے۔ ایاز صادق تو ہر وقت حکومت کی طرفداری کرتے تھے، اسد قیصر نے غیر جانبدار ہو کر ایوان کو چلایا ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے رہنما سابق سپیکر ایاز صادق نے کہا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں تمام پارٹیوں کے نمائندے ہوتے ہیں، مجھے عمران خان اور پی ٹی آئی والوں کی عقل پر حیرانی ہوتی ہے پبلک اکائونٹس کمیٹی میں نیب اور ایف آئی اے کا ایک ایک نمائندہ ہمیشہ آتا ہے۔ پی اے سی میں تمام کام اتفاق رائے سے ہوتا ہے اگر شہباز شریف نے نیب کے حوالے سے کوئی بات کی تھی تو حکومتی ارکان اس کی نشاندہی کرسکتے تھے نہ ہی میڈیا میں کور ہوا نہ حکوت نے کوئی اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نا اہل اور نا تجربہ کار ہے ابھی تک سمت کا تعین نہیں ہوا، یہ لوگ تو سپیکر کے ڈائس کے پاس آکر کھڑے ہوتے تھے، رولز آف بزنس اچھالے جاتے تھے اور کاغذ پھاڑ کر سپیکر پر پھینک دیئے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سپیکر کی عزت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ہم شیخ رشید کی مذمت کرتے ہیں جنہوں نے سپیکر کے خلاف نا مناسب الفاظ استعمال کئے ہیں وہ ہمارے سپیکر ہیں، صرف پی ٹی آئی کے سپیکر نہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے سپیکر کو خط لکھا ہے اور درخواست کی ہے کہ مجھے سارا ڈیٹا فراہم کیا جائے کہ میں نے کس جماعت کو کتنا وقت دیا۔ میں نے پی ٹی آئی ارکان کو مختص شدہ وقت سے زیادہ وقت نہ دیا ہو تو جو چور کی سزا ہے وہ میری سزا ہوگی، میرے پاس سارا ریکارڈ ہے یہ لوگ سپیکر پر دباؤ ڈال رہے ہیں ان کو متنازعہ بنا رہے ہیں اور ابھی تک یہ لوگ اپوزیشن موڈ میں ہیں۔ کنٹینر سے نہیں اترے کیونکہ ان سے کام نہیں چل رہا۔ یہ توجہ کا رخ موڑنا چاہتے ہیں ان کو تو چاہئے کہ ٹھنڈے ہو کر ہماری باتیں سنیں اور قانون سازی کریں۔ ان کا کہنا تھا ہم حکومت گرانا نہیں چاہتے، ان کا کہنا تھا اسد قیصر بہت اچھے انسان ہیں، ان کی نیت اچھی ہے، ان کی کوشش ہے مگر حکومت ان کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے، اسد قیصر کے بارے میں شیخ رشید نے غیر مہذب گفتگو کی جو قابل مذمت ہے۔ ساری اپوزیشن اسد قیصر کے ساتھ کھڑی ہو گی لگتا ہے پی ٹی آئی اور خاص کر عمران خان کو شیخ رشید چلا رہے ہیں وہ تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں وہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ اسد قیصر اور میں بیٹھ کر اس پر بات کریں گے۔