کراچی: (رپورٹ : اختیارکھوکھر) منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں مصروف جے آئی ٹی اور نیب افسران کے سامنے صوبائی خزانے سے اومنی گروپ کو نوازنے کا ایک نیا اسکینڈل سامنے آ گیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ، سابق سیکریٹری توانائی آغا واصف سمیت حکومت سندھ کے دیگر اعلیٰ افسران نیب کے اس ریفرنس میں شامل تفتیش ہو سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق سندھ کی حکومتی شخصیات پر الزام ہے کہ انہوں نے اومنی گروپ کی حمایت یافتہ ایک نجی کمپنی کی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کراچی کے قریب نوری آباد میں 100 میگاواٹ کے بجلی گھر کے قیام میں خلاف معاہدہ 9 ارب سے زائد روپے کی خصوصی مالی مدد کی اور بجلی گھر سے کے الیکٹرک کراچی کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ٹرانس میشن لائن کے قیام اور چلانے کا سوا ارب روپے کا ٹھیکہ بھی خلاف قواعد اسی نجی کمپنی کو دے دیا۔ ذرائع نے دنیا نیوز کو بتایا کہ تین سال قبل قائم ہونے والے 100 میگاواٹ کے نوری آباد پاور پروجیکٹ کے معاہدے میں حکومت سندھ کے 49 فیصد اور نجی کمپنی کے 51 فیصد شیئرز ہیں، منصوبے پر خرچ ہونے والے 15 ارب روپے میں سے صرف پونے دو ارب روپے کا بندوبست کرنے کی ذمہ دار حکومت سندھ تھی، جب کہ باقی ماندہ 85 فیصد رقم کا بندوبست پرائیویٹ کمپنی کو کرنا تھا، لیکن اس منصوبے کے لیے حکومت سندھ نے نہ صرف اپنے حصے کی رقم فراہم کی بلکہ مذکورہ نجی کمپنی کو مالیاتی اداروں سے پونے 9 ارب روپے کی فنانسنگ کا بندوبست بھی کر کے دیا ، اس میں سے پونے 3 ارب روپے کا قرضہ سندھ بینک سے دیا گیا۔
سندھ حکومت نے اپنے انویسٹمنٹ سرٹیفکیٹس گروی رکھ کر مذکورہ کمپنی کو 6 ارب روپے کا قرضہ نیشنل بینک سے بھی دلوایا۔ نیشنل بینک میں انویسٹمنٹ سرٹیفکیٹس گروی رکھنے کی مدت تین سال تھی، لیکن نوری آباد پاور کمپنی قرضہ واپس نہ کر سکی تو بانڈز گروی رکھنے کی مدت میں پہلے ایک سال اور بعد ازاں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی۔ کمپنی کو 31 جنوری تک قرضہ واپس کر کے بانڈز بینک سے واگزار کرا کے سندھ حکومت کو دینے تھے، تاہم 21 جنوری 2019 ء کو سندھ کابینہ نے نجی کمپنی کی درخواست پر اپنے انویسٹمنٹ سرٹیفکیٹس گروی رکھنے میں جون 2020 ء تک مزید ڈیڑھ سال کی توسیع کرنے کی منظوری دے دی۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ کے یہ انویسٹمنٹ سرٹیفکیٹس جون 2020 ء میں میچور ہو جائیں گے، اگر نجی پاور کمپنی اس سے قبل یہ انویسٹمنٹ سرٹیفکیٹس بینک سے واگزار کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی تو نیشنل بینک حکومت سندھ کے یہ 6 ارب روپے کے سرٹیفکیٹس کیش کرا سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت سندھ نے اپنے انویسٹمنٹ سرٹیفکیٹس گروی رکھ کر ایک بڑا خطرہ مول لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بجلی گھر سے کے الیکٹرک کو بجلی فراہم کرنے کے لیے حکومت سندھ کے ادارے سندھ ٹرانس میشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے ذریعے نوری آباد سے کے الیکٹرک کے معمار گرڈ اسٹیشن تک ٹرانس میشن لائن ڈالنے، منصوبے کے سروے، ڈیزائن اور پانچ سال تک چلانے کا سوا ارب روپے کا ٹھیکہ بھی بجلی گھر لگانے والی ٹیکنیو مین کمپنی کو ہی دیا گیا، اس ٹھیکے کے لیے ٹیکنیومین کمپنی کا مقابلہ صرف ایک چینی کمپنی سے ہوا، جس نے ٹیکنیو مین سے دو کروڑ روپے زیادہ کی بولی دی تھی۔ ذرائع کے مطابق تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ اس ٹھیکے کے لیے مقابلے میں حصہ لینے والی چینی کمپنی کی جانب سے جمع کردہ بڈ سیکیورٹی کی ادائیگی کا تعلق بھی مبینہ طور پرنجی کمپنی کے اکاؤنٹ سے جا ملتا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ٹھیکے کے لیے چیف ایگزیکٹو آفیسر سندھ ٹرانس میشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی حسن رضا عباسی کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے ٹھیکے کا ورک آرڈر دینے کے لیے سخت شرائط عائد کی تھیں لیکن اُس وقت کے وزیر توانائی سندھ سید مراد علی شاہ اور سیکریٹری توانائی آغا واصف نے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو سمری بھیج کر مذکورہ شرائط نرم کرنے کی منظوری حاصل کی تھی، جس کے بعد ٹھیکہ دیا گیا تھا۔