لاہور: ( روزنامہ دنیا ) گورداس پور میں جہاں سے کرتار پور راہداری شروع ہوگی، راہداری اور مسافر ٹرمینل کے لیے زمینیں حاصل کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ انڈیا کی مرکزی حکومت نے ان کسانوں کے نام کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جن کی زمینیں ایکوائر کی جا رہی ہیں۔ سرکاری اہلکار وہاں ان کھیتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
انڈین لینڈ پورٹ اتھارٹی کے اہلکار اکھل سکسینہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ ایک ٹائم باؤنڈ پراجیکٹ ہوگا۔ اس کوریڈور کو 11 نومبر کو کھلنا ہے۔ اس وقت تک ہم یہاں ایک انتہائی جدید اور بڑا مسافر ٹرمینل تعمیر کریں گے۔ اس میں تمام مطلوبہ سہولیات ہوں گی۔ ڈیرہ بابا نانک میں بین الا قوامی سرحد پر کئی میل کی دوری پر واقع گورونانک دیو کے گورودوارے کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ سرحد پر دو طاقتور دوربینیں لگائی گئی ہیں جو اس گورودوراے پر فکسڈ ہیں۔ لوگ حسرت سے اس گورودوارے کو یہاں سے دیکھتے ہیں۔راہداری کھلنے کی امید سے لوگ بہت خوش ہیں۔
درشن کے لیے یہاں آنے والی ایک سکھ خاتون نونیت کور نے کہا ‘یہ بہت اچھا قدم ہے ۔ اس سے ہم اس مقدس مقام کی زیارت کر سکیں گے، ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان یہ دوستی کا سبب بنے گا اور کشیدگی ختم ہوگی۔ اٹاری کے بلجیندر سنگھ سندھو نے کرتار پور راہداری کے کھلنے کے امکان پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے مذہب کے بانی کا گورودوارہ ہے ۔ یہ ہماری ارداس میں شامل ہے۔ یہ ہمارے جذبات کا حصہ ہے۔ لوگوں کی یہ تمنا ہے کہ یہ مقام کسی روک ٹوک کے بغیر کھول دیا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس کے کھلنے سے دونوں دیشوں میں شانتی کا پیغام جائے گا۔ تناؤ میں کمی آئے گی۔ بنا سیاست کے یہ کام ہونا چاہئے ۔ عمران خان ایک اچھے وزیر اعظم ہیں۔
زمینیں حاصل کرنے کے نوٹیفکیشن کے اجرا کے ساتھ ہی کوریڈور میں آنے والے کسانوں نے اپنی زمینوں کا معاوضہ تین گنا بڑھا دیا ہے۔ مقامی لوگ بہت خوش ہیں کہ آنے والے دنوں میں گورداس پور کا یہ علاقہ ایک بڑے سیاحتی مرکز میں تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ کرتارپور میں واقع گورودوارہ دربار صاحب کا انڈین سرحد سے فاصلہ چند ہی کلومیٹر کا ہے اور یہ پنجاب کے ضلع نارووال کی حدود میں تحصیل شکر گڑھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے۔ یہاں سے انڈیا کے ڈیرہ صاحب ریلوے سٹیشن کا فاصلہ تقریباً چار کلومیٹر ہے۔ راوی کے مشرقی جانب خاردار تاروں والی انڈین سرحد ہے۔ کرتار پور وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے پہلے گورو بابا نانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ یہیں گورودوارے میں ان کی ایک سمادھی اور قبر بھی ہے جو سکھوں اور مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے ۔