سمندر‌ میں تیل: قبل از وقت شور شرابا

Last Updated On 29 March,2019 08:30 am

لاہور: (مسعود ابدالی) ہمارے وزیراعظم پاکستانیوں کی خوشی اور خوشحالی کیلئے بے چین ہیں اور اسی بنا پر وہ سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کیلئے کھودے جانیوالے کنویں کیکڑا نمبر 1 کے بارے میں پر جوش و پر امید نظر آرہے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں جلد بازی انکے منصب کے شایانِ شان نہیں۔

پر امید ہونا تو اچھی بات ہے لیکن کھدائی کی تکمیل سے پہلے ہی ایشیا میں تیل و گیس کے سب سے بڑے ذخیرے کے دریافت ہونے کی خوشخبری سنا دینا کسی طور مناسب نہیں۔ اس کنویں پر کامیابی کی امید صرف 12 فیصد ہے اور اس پس منظر میں قبل از وقت کامیابی کے شادیانے بجا دینا اس اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے کہ اگر خدانخواستہ متوقع نتائج حاصل نہ ہوسکے تو جہاں قوم کے حوصلے پست ہونگے وہیں وزیراعظم پر سے قوم کا اعتماد ختم ہوجائیگا۔ جو احباب اس صنعت سے وابستہ نہیں انکے لئے عرض ہے کہ تیل کے ذخیرے کی دریافت کیلئے چند باتیں اہم ہیں اس جگہ مسام دار چٹانیں جیسے چونے کا پتھر یا ریت ضروری ہیں جن میں تیل یا گیس جمع رہے۔ تیل گیس اور پانی زیر زمین چٹانوں کے مسامات میں اسی طرح جمع رہتے ہیں جیسے اسفنج میں پانی۔ یہ مسام دار چٹانیں ہی کیکڑا کا ہدف ہے۔

دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اس مسام دار چٹان کے اوپر ایک غیر مسام دار چٹان موجود ہو جو اس تیل و گیس کے ذخیرے کو محفوظ رکھ سکے۔ اگر ذخیرے کے اوپر چٹانوں کی کوئی سخت پرت موجود نہ ہو یہ تیل و گیس اوپر اور دائیں بائیں رس جائیگی۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس جگہ کی ساخت و بناوٹ ایسی ہو کہ تیل و گیس ہر طرف سے سمٹ کر ذخیرے کی طرف آسکے۔ ان تینوں نکات کا حتمی تعین اسی صورت ہوسکتا ہے جب ہدف تک کامیابی سے کھدائی مکمل کرلی جائے اور محض کھدائی کافی نہیں بلکہ مسامات کے تجزئے و پیمائش، ذخیرے میں موجود تیل و گیس کی مقدار کے تعین، اسکے دباؤ اور غیر مسام دار چٹان کے تجزئے کیلئے تفصیلی پیمائش و آزمائش کے بعد ہی تیقن کے ساتھ کچھ کہا جاسکتا ہے۔

اس سے پہلے ہونے والے مشاہدات و نشانات سے کچھ اندازہ تو ہوتا ہے لیکن اسکی بنیاد پر امید قائم کرلینا مناسب نہیں۔ اس ضمن میں آجکل Pressure Kicks کا بڑا شور ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہ زیرزمین تیل و گیس کے غیر معمولی دباؤ کا مظہر ہے۔ پریشر ککس کو سمجھنے کیلئے احباب تصور کریں کہ چار پانچ ہزارمیٹر مٹی سے دبی چٹانوں میں مائعات (تیل ، پانی یا گیس) پھنسے ہوتے ہیں اور جب کھدائی کے دوران اوپر کی پرت ادھڑتی ہے تو یہ مائع پوری قوت سے کنویں کے راستے اوپر کی طرف اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کیلئے پانی میں مختلف کیمیکل ملا کر نیچے پمپ کیا جاتا ہے جسے کیچڑ کہتے ہیں۔ کیچڑ کی کمیت بڑھانے کیلئے اس میں وزن دار کیمیکل جیسے بیرائٹ ملایا جاتا ہے جسکی وجہ سے کیچڑ بھاری ہوجاتا ہے۔ کیچڑ سے زیر زمین پڑنے والے دباؤ کو Hydrostatic Pressure کہتے ہیں جبکہ زیر زمین اوپر کی جانب دباؤ Formation Pressure کہلاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ Hydrostatic Pressureزیر زمین دباؤ سے اتنا زیادہ تو ہوکہ چٹانو ں میں پھنسا مائع اوپر کی جانب سفر نہ کرسکے لیکن اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ اسکے دباؤ سے زیر زمین چٹانیں ٹوٹ پھوٹ جائیں۔ زیر زمین دباؤ کے تخمینے میں بسا اوقات غلطی ہوجاتی ہے جسکی وجہ سے Pressure Kicks کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کیکڑا 1 میں بھی جس Pressure Kicks کی جو بات کی جا رہی ہے وہ اسی قسم کی ایک چیز ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ پانی کی Kick ہو۔ ساری قوم عمران خان کی طرح پر امید و دعا گو ہے لیکن کنویں کی کھدائی ایک عام ٹیکنیکل معاملہ ہے اور جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں وہ انتہائی تجربہ کار ہیں، انھیں معلوم ہے کہ کس مرحلے پر حاصل ہونے والی معلومات حتمی ہیں جو وقت پر جاری کر دی جائینگی۔