امریکی سفیر پاکستانیوں کے نشانے پر، مگر کیوں ؟

Last Updated On 29 March,2019 09:14 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) افغانستان میں تعینات امریکی سفیر جان روڈنی باس کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان پر افغان امن عمل میں 'بال ٹمپرنگ' کا الزام عائد کرنے پر پاکستانیوں نے انہیں کرارا جواب دیا۔

امریکی سفیر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ   ٹوئٹر  پر کئے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘کرکٹ کے بعض پہلوؤں کا سفارتکاری میں اچھی طرح اطلاق ہوتا ہے اور کچھ نہیں، عمران خان یہ اہم ہے کہ آپ افغانستان کے امن عمل اور داخلی معاملات میں بال ٹمپرنگ کی اپنی کوشش کو روک کر رکھیں’۔ امریکی سفیر کے بیان پر پاکستان کی جانب سے فوری ردعمل کا اظہار کیا گیا، اکثر افراد نے حیرانی کا اظہار کیا کہ ایک سفارتی نمائندہ پڑوسی ملک کے وزیراعظم پر الزام کیسے عائد کر سکتا ہے۔

کالم نگار مشرف زیدی نے اس ٹوئٹ کو امریکہ کے لیے باعث شرمندگی قرار دیا، انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ کو اس تلخ تنقید کا جواب دینا چاہیے۔ مشرف زیدی نے مزید کہا کہ درمیانی درجے کے بیوروکریٹ کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم کے لیے ایسی بات کرنا خطرے کی گھنٹی ہے۔ دفاعی اور سکیورٹی تجزیہ کار اعجاز حیدر نے امریکی سفیر کو سفارت کاری سے متعلق کورس کرنے کا مشورہ دیا۔

سینئر صحافی خرم حسین نے بھی امریکی سفیر پر تنقید کرتے ہوئے انہیں یاد دہانی کروائی کہ ایک وزیراعظم کی توہین کر کے انہوں نے سفارتی قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ  کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ سفارتکاری کی الف، ب سے واقف بھی ہیں ؟ آپ کو اس ملک کے وزیراعظم کے متعلق ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی جو اس ملک کا پڑوسی ہے جہاں آپ بطور سفیر تعینات ہیں۔

حکومتی نمائندوں نے بھی اس حوالے سے اپنی آواز اٹھائی، وزیر خزانہ اسد عمر نے امریکی سفیر پر تنقید کی اور ان کی سفارتی صلاحیتوں پر سوال اٹھایا۔ اسد عمر نے کہا کہ  آپ کی ٹوئٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نہ تو کرکٹ سمجھتے ہیں نہ ہی سفارتکاری۔  وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے کہا کہ  جان باس، آپ اپنے ایسے رویے سے امریکہ کے اچھے سفارتکاروں کی فہرست میں کبھی جگہ نہیں بناسکیں گے۔

وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے امریکی سفیر کو بونے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ  جتنی کم معلومات آپ کی بال ٹمپرنگ کے بارے میں ہیں، اتنی ہی افغانستان اور خطے سے متعلق ہیں۔  شیریں مزاری نے امریکی سفیر کے ٹوئٹ کو خلیل زاد کی جانب سے اپنایا جانے والا ڈونلڈ ٹرمپ کا نامناسب رویہ قرار دیا۔ تاہم شیریں مزاری کے ٹوئٹ پر بعض افراد کی جانب سے غیر سفارتی زبان کے استعمال پر تنقید کی گئی۔ جس پر کالم نگار مشرف زیدی نے شیریں مزا ری کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر شیریں مزاری کا ٹوئٹ آپ کے لیے وزیراعظم پر جان باس کے الزام سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے تو آپ کو خود کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

صحافی ضرار کھوڑو نے بھی شیریں مزاری کی حمایت کی اور ٹوئٹ کیا کہ  یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ شیریں مزاری کا ٹوئٹ سفارتی قواعد کی خلاف ورزی ہے، لیکن امریکی سفیر کا ٹوئٹ (جو حقیقت میں سفارتکار ہیں) وہ بالکل ٹھیک ہے۔  بعد ازاں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں پاکستان کی تعمیری کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان نے تعمیری کردار ادا کیا، لیکن وزیراعظم پاکستان کے حالیہ بیان نے متاثر نہیں کیا۔

دفتر خارجہ کی جانب سے وزیراعظم کے بیان پر تنقید کے بعد وضاحت کی گئی تھی کہ افغانستان میں نگراں حکومت کے قیام کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو میڈیا میں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، جس کی وجہ سے مختلف حلقوں کی طرف سے غلط ردعمل سامنے آیا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا افغانستان میں اس کے علاوہ اور کوئی مفاد نہیں کہ امن کو ایک ایسے سیاسی عمل کے ذریعے فروغ دیا جائے جس کے مالک اور سربراہ افغان ہوں۔