لاہور: (روزنامہ دنیا) افغانستان میں تعینات امریکی سفیر جان روڈنی باس کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان پر افغان امن عمل میں 'بال ٹمپرنگ' کا الزام عائد کرنے پر پاکستانیوں نے انہیں کرارا جواب دیا۔
امریکی سفیر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کئے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘کرکٹ کے بعض پہلوؤں کا سفارتکاری میں اچھی طرح اطلاق ہوتا ہے اور کچھ نہیں، عمران خان یہ اہم ہے کہ آپ افغانستان کے امن عمل اور داخلی معاملات میں بال ٹمپرنگ کی اپنی کوشش کو روک کر رکھیں’۔ امریکی سفیر کے بیان پر پاکستان کی جانب سے فوری ردعمل کا اظہار کیا گیا، اکثر افراد نے حیرانی کا اظہار کیا کہ ایک سفارتی نمائندہ پڑوسی ملک کے وزیراعظم پر الزام کیسے عائد کر سکتا ہے۔
کالم نگار مشرف زیدی نے اس ٹوئٹ کو امریکہ کے لیے باعث شرمندگی قرار دیا، انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ کو اس تلخ تنقید کا جواب دینا چاہیے۔ مشرف زیدی نے مزید کہا کہ درمیانی درجے کے بیوروکریٹ کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم کے لیے ایسی بات کرنا خطرے کی گھنٹی ہے۔ دفاعی اور سکیورٹی تجزیہ کار اعجاز حیدر نے امریکی سفیر کو سفارت کاری سے متعلق کورس کرنے کا مشورہ دیا۔
سینئر صحافی خرم حسین نے بھی امریکی سفیر پر تنقید کرتے ہوئے انہیں یاد دہانی کروائی کہ ایک وزیراعظم کی توہین کر کے انہوں نے سفارتی قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ سفارتکاری کی الف، ب سے واقف بھی ہیں ؟ آپ کو اس ملک کے وزیراعظم کے متعلق ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی جو اس ملک کا پڑوسی ہے جہاں آپ بطور سفیر تعینات ہیں۔
حکومتی نمائندوں نے بھی اس حوالے سے اپنی آواز اٹھائی، وزیر خزانہ اسد عمر نے امریکی سفیر پر تنقید کی اور ان کی سفارتی صلاحیتوں پر سوال اٹھایا۔ اسد عمر نے کہا کہ آپ کی ٹوئٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نہ تو کرکٹ سمجھتے ہیں نہ ہی سفارتکاری۔ وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے کہا کہ جان باس، آپ اپنے ایسے رویے سے امریکہ کے اچھے سفارتکاروں کی فہرست میں کبھی جگہ نہیں بناسکیں گے۔
Your tweet shows you understand neither cricket nor diplomacy. With the afghan peace process at such a critical juncture hope the US will be able to find better diplomatic skills to deal with the delicate issues at hand. https://t.co/9iYWfOF92U
— Asad Umar (@Asad_Umar) March 27, 2019
وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے امریکی سفیر کو بونے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ جتنی کم معلومات آپ کی بال ٹمپرنگ کے بارے میں ہیں، اتنی ہی افغانستان اور خطے سے متعلق ہیں۔ شیریں مزاری نے امریکی سفیر کے ٹوئٹ کو خلیل زاد کی جانب سے اپنایا جانے والا ڈونلڈ ٹرمپ کا نامناسب رویہ قرار دیا۔ تاہم شیریں مزاری کے ٹوئٹ پر بعض افراد کی جانب سے غیر سفارتی زبان کے استعمال پر تنقید کی گئی۔ جس پر کالم نگار مشرف زیدی نے شیریں مزا ری کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر شیریں مزاری کا ٹوئٹ آپ کے لیے وزیراعظم پر جان باس کے الزام سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے تو آپ کو خود کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
Clearly you little pygmy your knowledge of ball tampering is as void as your understanding of Afghanistan and the region! Clearly in your case ignorance is certainly not bliss! Another sign of Trumpian mischief a la Khalilzad style! https://t.co/ZOySvWJNDq
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) March 27, 2019
صحافی ضرار کھوڑو نے بھی شیریں مزاری کی حمایت کی اور ٹوئٹ کیا کہ یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ شیریں مزاری کا ٹوئٹ سفارتی قواعد کی خلاف ورزی ہے، لیکن امریکی سفیر کا ٹوئٹ (جو حقیقت میں سفارتکار ہیں) وہ بالکل ٹھیک ہے۔ بعد ازاں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں پاکستان کی تعمیری کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان نے تعمیری کردار ادا کیا، لیکن وزیراعظم پاکستان کے حالیہ بیان نے متاثر نہیں کیا۔
Haha! Haters gonna hate! But seriously what diplomatic norms? US dips have been violating them all day today from Zalmay to this moron! https://t.co/7iQKgRTVPv
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) March 27, 2019
دفتر خارجہ کی جانب سے وزیراعظم کے بیان پر تنقید کے بعد وضاحت کی گئی تھی کہ افغانستان میں نگراں حکومت کے قیام کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو میڈیا میں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، جس کی وجہ سے مختلف حلقوں کی طرف سے غلط ردعمل سامنے آیا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا افغانستان میں اس کے علاوہ اور کوئی مفاد نہیں کہ امن کو ایک ایسے سیاسی عمل کے ذریعے فروغ دیا جائے جس کے مالک اور سربراہ افغان ہوں۔