لاہور: (جسٹس( ر) منظور گیلانی ) تقسیم ہند کے ساتھ ہی پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ جن بڑے بڑے مسائل کا واسطہ پڑا ان میں سب سے بڑا کشمیر کا مسئلہ ہے جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بے شمار مسائل کو جنم دیا۔ باقی مسائل میں سے اثاثوں اور پانیوں کے مسائل تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طور حل ہوگئے۔ یہ مسائل بھی ہندوستان کو بیرونی اور اندرون دباؤ کی وجہ سے حل کرنا پڑے، ان میں گاندھی جی کامرن بھر ت بھی شامل ہے۔ ان کے علاوہ رن کچھ کا مسئلہ تھا جو ایوارڈ کی صورت میں تو حل ہو گیا، لیکن ابھی اس پر عملدرآمد باقی ہے۔ حیدر آباد، جونا گڑ ھ اور ماناور بھی تنازع کا سبب بنے لیکن اصول تقسیم ہند کے اصولوُں کی روشنی میں یہ معقول بنیادوں پر مبنی نہیں تھے جس وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوا میں تحلیل ہوگئے۔
کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے یو این او کی سلامتی کونسل نے منصفانہ طور ایک مربوط حل تجویز کیا، لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یہ روز بر وز گھمبیر ہوتا گیا جس میں ہندوستان کے مقابل میں ہماری غلطیاں زیادہ ہیں جن کی تفصیل میں جانا اس وقت نہ ضروری ہے نہ مناسب کیونکہ وہ ریورس نہیں ہو سکتے، لیکن اب اورکئی معقول اور زیادہ اہم مواقع پیدا ہوگئے ہیں جن پر پرو ایکٹیو ہونے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی گزشتہ تیس سال سے جو کیفیت ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس سے پہلے شملہ سمجھوتہ کے تحت پاکستان عملی طور ذہنی دباؤ میں یہ قبول کر بیٹھا کہ یہ دو طرفہ مسئلہ ہے اس لئے کبھی کسی با اختیار بین الاقوامی ادارے مین با ضابطہ اور پرزور طور پر نہیں اٹھایا گیا حالانکہ شملہ معاہدہ شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ دو ملکوں کے درمیان تعلقات کا تعین یو این چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کے مطابق/ تابع ہونگے۔ اس کے بعد بد قسمتی یا سفارت کاری کی نالائقی کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ ہر معاہدے، مشترکہ اعلان اور مفاہمت کی دستاویز میں لکھا گیا کہ دونوں ملک اپنے سارے مسائل بشمول مسئلہ کشمیر بات چیت کے زریعہ پر امن طریقے سے حل کریں گے انگریزی میں یوں لکھا اور کہا جاتا رہا All issues/ Disputes including the issue of Jammu & Kashmir-حالانکہ سوائے کشمیر کے پاکستان کا ہندوستان کے ساتھ اور مسئلہ ہی کیا تھا یا ہے ؟۔
وہ کون سے مسائل ہیں جو کشمیر سے زیادہ اہم ہیں جن کے ساتھ کشمیر کو چٹنی نتھی کے طور ساتھ رکھا جائیگا ؟ باقی سب مسائل کشمیر سے منسلک اور کشمیر کے حل کے ساتھ ہی ان کا حل خود بخود ہو جائیگا، جن مین سیا چن، کشمیر سے نکلنے والے تین دریا جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے ہیں، ان دریاؤں پر ہندوستان کے حق استعمال کے حدود، ان پر بننے والے ڈیم، ولر بیراج اور اس سے منسلک دیگر معاملات، اس وقت کشمیر اور کشمیریوں کی موجودہ صورت حال ، ہندوستان کی پاکستان کے ساتھ مخاصمت ہی نہیں جنگی کیفیت، ہندوستان کی کشمیر پر ہٹ دھرمی ، سلامتی کونسل ، شملہ معاہدہ ، من حیث القوم کشمیریوں کی ہندوستان کے خلاف بغاوت ، ریاست کا ۳/۱ حصہ پاکستان کے پاس ہونے کے باوجود ہندوستان کا پوری ریاست کو اپنا آٹوٹ انگ جتلاتا ہی نہیں ، بلکہ ان کی پارلیمنٹ کی 1994 کی متفقہ قرار داد ہے کہ ریاست کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے اس سے واپس لیا جائے۔ اس پس منظر میں وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اب کشمیر پر اپنے قومی بیانیہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد وں اور زمینی حقائق کے مطابق تجدید کرنے کی ضرورت ہے جو یوں ہوں۔
1- ہندوستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر ، اس سے متعلق دیگر ایشوز کے علاوہ باقی سارے مسائل پر امن طریقے سے حل کرنا ---To settle Kashmir and all issue related therewith and others , peacefully یہ ایک ٹھوس ، جاندار، سفارتی ، بین الاقوامی اور زمینی حقائق کے مطابق قومی موقف اور بیا نیہ ہے اور اسی سے پاکستان کی سنجیدگی کا دنیا کو احساس اور کشمیریوں میں حوصلہ پیدا ہوگا-
2- مہاراجہ کشمیر کے ساتھ معاہدہ قائمہ (Stand still Agreement ) کی روح کے مطابق پوری ریاست جموں وکشمیر کو دعوت دی جائے کہ وہ پاکستان کے سات الحاق کریں ان کے ساتھ ان ہی خطوط اور شرائط پر الحاق کیا جائیگا جو مہاراجہ کشمیر اور حکومت پاکستان نے معاہدہ قائمہ ( Standstill Agreement )میں تسلیم کئے ہیں۔
3- تیسرا اہم بیانیہ سلامتی کونسل کی قرار داد وں اور پاکستان کے آئین کی دفعہ 257 کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی مین سٹریم Mainstream ریجنل جماعتوں , جن میں بلخصوص نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیمو کریکٹ پارٹی سر فہرست ہیں اور جو ہندوستان سے آٹا نومی اور سیلف رول مانگ کر رہی ہیں کو دعوت دیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں ان کے یہ مطالبے پاکستان پورے کرے گا کیونکہ آئین پاکستان کی دفعہ 257 واضع طور کہتی ہے کہ جب کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے تو ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا تعین ان کی خواہشات کے مطابق کیا جا ئیگا-
اس وقت کشمیر کی غالب اکثریت نہ صرف ہندوستان کے خلاف ہے بلکہ پاکستان کے حق میں ہے، آٹا نومی اور سیلف رول مانگنے والے بھی یہ نہ ملنے پر ہندوستان کے خلاف ہیں اور ریاستی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے اکثر امیدوار بر ملا پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔ ان جماعتوں کے سربراہ پلوامہ واقعہ پر اور پاکستان کے علاقہ میں فضائی در اندازی کی بھی مذمت کرتے رہے ہیں۔ ان کو یہ دعوت دیکر ان جماعتوں اور ہندوستان پر دباؤ بڑھ جائیگا جس سے حریت پسندوں اور پاکستان کے موقف کو اور تقویت ملے گی- ایسا کرنا قانون آزادی ہند 1947، تقسیم ہند کے اصولوں، زمینی اور بین الاقوامی حالات کے مطابق ہے اور کسی بین الاقوامی، اخلاقی یا باہمی معاہدے کی خلاف ورزی بھی نہیں ہے۔ نریندر مودی کئی بار آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، بلوچ ، پختونوں اور مہاجر وں کو اس پر اکسا چکے ہین بلکہ کام بھی کرتے ہیں۔ پاکستان تو مہاراجہ وقت ، والئی ریاست کے ساتھ ، معاہدہ قائمہ standstill agreement کے تحت ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے ، سلامتی کونسل کی قرار داد وں کے تحت دعویدار اور کشمیریوں کی پکار کے تحت ایسا کرنے کا قانونی، سفارتی، اخلاقی اور سیاسی طور پابند بھی ہے۔
پاکستان کشمیر پر جب تک ان خطوط پر تجدیدی Innovative/ pro active policy نہیں بنائے گا اس مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت کا امکان نہیں، ایسے مواقع بار بار پیدا نہیں ہوتے۔ کشمیر کے لوگ یہ سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی راگ سن سن کے زچ ہو چکے ہیں۔ اس ایشو پر تجدیدی پالیسی کے تحت سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی طور عملی اقدامات کی ضرورت ہے ، تاکہ کشمیریوں کے حوصلے بلند ، تحریک میں تسلسل، بین الاقوامی رائے متوجہ اور Focussed رہے۔ پلوامہ کے واقعہ ، بالا کوٹ میں ناکام ہندوستانی حملہ، دو ہندوستانی جنگی جہاز گرانے ، پائیلٹوں کو زندہ گرفتار کرنے کے بعد ہندوستان کے لوگوں اور فوج کے حوصلے پست اور کشمیریوں کے بلند ہوئے ہیں اور کشمیر کا مسئلہ بھی دنیا میں توجہ کا مرکز بن گیا ہے ، اس کو تجدیدی عمل سے بحال رکھنے کی ضرور ت ہے۔