لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) نیب کو ملنے والا تمام مواد اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ شہباز شریف فیملی کے خلاف، ان کے دونوں صاحبزادوں کیخلاف جو الزامات لگے ہیں ان کو محض سیاسی الزامات کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا، تمام دستاویزات اور علامات اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ یہاں پر کہیں نہ کہیں منی لانڈرنگ کی منظم کوشش ہوئی ہے جس کے مسلسل شواہد سامنے آرہے ہیں، یہ شواہد بے وجہ نہیں لگ رہے ہیں۔
نئے حقائق کے مطابق شہباز شریف، حمزہ شہباز، سلمان شہباز اور فیملی کے دیگر افراد کے اثاثے ٹی ٹی کے ذریعے بھیجی گئی رقم سے بنائے گئے ہیں، ان تمام شواہد نے معاملات کو مشکوک بنا دیا ہے، وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر اور وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر نے بھی پریس کانفرنس میں تفصیل سے معلومات شیئر کیں، منی لانڈرنگ کے حوالے سے نیب کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق حمزہ شہباز کے 95 فیصد، سلمان شہباز کے اثاثوں کا 99 فیصد، نصرت شہباز کے 85 فیصد اور شہباز شریف کی صاحبزادیوں کے 100 فیصد اثاثے ٹی ٹی کے ذریعے بھیجی گئی، مشکوک رقوم سے بنائے گئے گویا کہ ان تمام اثاثوں کی رقوم باہر سے آئی تھیں۔
حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ ان کے اثاثے باہر چھپے ہوئے ہیں ضرورت پڑنے پر مشکوک ٹی ٹی کے ذریعے ملک میں پہنچا دیئے جاتے ہیں، شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی نے مبینہ طور پر ڈی ایچ اے اسلام آباد اور ڈی ایچ اے لاہور، ماڈل ٹائون میں تین فلیٹس خریدے، نصرت شہباز کو 2013 اور 2018 کے درمیان اراضی کے علاوہ ساڑھے پانچ کروڑ تحفے میں دیے، نیب کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 1985 سے 1990 میں اقتدار میں رہ کر جو پیسے جمع کیے اس کی منی لانڈرنگ کیلئے 1999 میں اکنامک ریفارمز پروگرام بنایا، اسحاق ڈار اس میں معاون تھے، جس میں فارن کرنسی اکاؤنٹس کو تحقیقات سے استثنیٰ دیا گیا، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز نے سیاست اور بزنس کا حسین امتزاج بنایا اور اسے خوب انجوائے کیا۔ سلما ن شہباز نے اس دوران چکن سے لے کر رئیل سٹیٹ تک کا کام کیا۔
اس حوالے سے سابق وزیر قانون سید علی ظفر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کے جب الزامات لگتے ہیں تو ایک تھریٹ نظر آتی ہے کہ سارے کیس ایسے ہی ہونگے، منی لانڈرنگ میں باہر سے آپ پیسہ منگواتے ہیں اور پھر کسی کاروبار میں لگاتے ہیں، پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ جب ہم منی لانڈرنگ کی بات کرتے ہیں تو ایک سیاسی پاور ہاؤس ہوتا ہے جس کے ساتھ ایک بزنس ہاؤس مل جاتا ہے، سیاسی ہاؤس ہی بزنس شروع کر دے تو یہ ابیوز آف پاور کہلاتی ہے یعنی اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہے ہیں اپنے مفاد کیلئے، اس کے حوالے سے نیب کے قانون میں شق ہے، منی لانڈرنگ کے مقدمات جب تک ٹرائل میں نہ آئیں الزامات ہی ہوتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر وہ 13 سال سے پاور میں ہیں، سب کو پتا ہے کہ ان کے بچے بزنس کر رہے تھے، تو پھر ان کو آج کے دن کا اندازہ ہونا چاہئے تھا کہ نیب کے الزامات، تحقیقات ہونگی، ان کو فیس کرنے کیلئے تیار ہونا چاہئے، ہوسکتا ہے کچھ چیزیں ریفرنس میں تبدیل ہوں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیاسی رنگ ہے، جو دستاویزات دیکھیں، الزامات کو سمجھا، نہیں لگتا کہ یہ سیاسی رنگ ہے، شریف فیملی کو اس کا دفاع کرنا پڑے گا، سوالات کے جواب کیلئے شہباز شریف کو جواب دینا چاہئے۔ مہذب معاشروں میں سیاست میں کاروبار لانے والوں سے پوچھ گچھ ہوتی ہے۔