لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے خاندان پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگ رہے ہیں، ان میں وزن بڑھتا جا رہا ہے، جوابات سے وزن گھٹتا جا رہا ہے، جوابات غیر معقول لگ رہے ہیں، پاکستان کا یہ اہم سیاسی خاندان سخت مشکلات میں گھرا نظر آتا ہے، منی لانڈرنگ کے الزامات میں دھنستا چلا جا رہا ہے، اس کی ابتدا اس زمانے سے ہوئی جب 2008 کے بعد پنجاب میں تبدیلی حکومت ہوئی تھی اور اس کے چند ماہ بعد شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تھا، ان کے اہل خانہ نے کاروبار کا ایک نیا دور شروع کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے شہباز شریف سامنے آئے تھے اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے کرتا دھرتا ان کے بیٹے حمزہ شہباز بن گئے تھے، ان کے چھوٹے بیٹے سلمان شہباز نے کاروبار کی مسند بچھائی تھی۔ یہ ایک تکون بنی تھی جو ہر لحاظ سے 'مفادات کے ٹکراؤ' کی بد ترین تصویر تھی۔
پنجاب میں ن لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد شہباز شریف فیملی کے اثاثوں میں دن دوگنا اور رات چوگنا اضافہ شروع ہو گیا، جیسے جیسے شہباز شریف کی اقتدار پر مٹھی مضبوط ہوتی گئی۔ کاروبار میں سلیمان شہباز کی مٹھی مضبوط ہوتی چلی گئی، اپنے کاروبار بھی بننے شروع ہوئے، دوسرے کاروباروں میں بھی حصہ داری شروع ہوئی، پاکستان کے تمام کاروباری خاندانوں کے ساتھ نئے رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا کیونکہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ تھا، وہاں پر بلا شرکت غیرے شہباز شریف کی حکومت تھی، اس ماحول میں شہباز خاندان نے اپنے پروفائل میں زبردست اضافہ کیا کمپنیوں کے بعد کمپنیاں بننے لگیں، اس خاندان کے کاروباری پروفائل میں مدینہ ٹریڈنگ کمپنی، مدینہ کنسٹرکشن کمپنی، شریف سٹیل مل، شریف ڈیری فارم، شریف پولٹری فارم، رمضان انرجی لمیٹڈ، کمرشل پلاسٹک لمیٹڈ، رمضان ٹیکسٹائل ملز، کلثوم ٹیکسٹائل ملز، چنیوٹ پاورلمیٹڈ، شریف ملک پراڈکٹس لمیٹڈ، العربیہ شوگر ملز، یونیٹا پاور، علی کمپنی، اے جی انرجی، ایکو پاور سلوشن، محمد بخش ٹیکسٹائل ملز، کوالٹی چکن جیسے نام سامنے آنے شروع ہو گئے۔
اس ماحول میں شہباز شریف خاندان کا کاروبار تیزی سے پھیل رہا تھا۔ شریف خاندان کے بینک اکاؤنٹس میں سینکڑوں مرتبہ بیرون ملک سے ترسیلات زر آنے لگیں ان کے اکاؤنٹس میں مشکوک انداز میں ڈالر برسنے لگے، اب یہ معاملات سامنے آگئے ہیں اور اس کی وجہ سے کئی اہم سوالات بھی سامنے آ رہے ہیں جن کے جوابات درکار ہیں۔ یہ وہ احتسابی عمل ہے جس کا ہر صورت میں شہباز شریف، ان کے صاحبزادوں سلمان اور حمزہ شہباز نے سامنا کرنا ہے، اس معاملے میں شہباز شریف خاندان کی خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے لیکن یقیناً ان کا اس میں براہ راست کوئی کردار نہیں ہے۔ گھر کے مردوں نے خواتین کے اکاؤنٹس کو استعمال کیا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس معاملے میں اہم ترین سوالات اٹھ رہے ہیں جن کے جوابات سامنے نہیں آئے۔
شہباز شریف کے خاندان نے دو طریقے سے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ایک انٹرویو سلمان شہباز نے ایک ٹی وی کو دیا ہے اور حمزہ شہباز نے ایک اخبار کو تحریری جوابات کے ذریعے انٹرویو دیا ہے۔ جو سوالات ہوئے ہیں ان کے جوابات نہیں مل رہے اس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ ان کلیدی، نازک، اہم ترین سوالات کے جوابات شہباز شریف فیملی کے پاس نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ کیا حمزہ شہباز، سلمان شہباز، نصرت شہباز، رابعہ شہباز اور جویریا شہباز کے بینک اکاؤنٹس میں باہر سے پیسے آئے یا نہیں آئے ؟ اس کے ثبوت سامنے آ رہے ہیں لیکن شہباز شریف خاندان ماننے کے لئے تیار نہیں، یہ بھی نہیں مان رہا کہ حمزہ شہباز کے 95 فیصد اور سلمان شہباز کے 99 فیصد اثاثے جو اس وقت موجود ہیں، وہ در اصل پر اسرار افراد کی بیرون ملک سے 200 ٹرانزیکشنز سے بنے ہیں۔
پر اسرار شخصیات نے ان کے بینک اکاؤنٹس میں ڈالر بھیجے ہیں، اس کا جواب ابھی تک نہیں دیا گیا ہے ،اس کا بھی جواب نہیں ہے کہ اکتوبر 2018 میں تحقیقات شروع ہونے کے اگلے ہی دن سلمان شہباز اور نصرت شہباز اپنی بیٹیوں کے ساتھ باہر کیوں چلے گئے تھے اور اب نیب کا سامنا کرنے سے سلمان شہباز کیوں کترا رہے ہیں ؟ اس سوال کا جواب بھی نہیں کہ اس خاندان کو آخر کس نے ، کیوں، کس وجہ سے برطانیہ ، امریکہ ، کینیڈا، ہانگ کانگ اور متحدہ عرب امارات سے 26 ملین ڈالر بھیجے تھے۔ کس حساب میں اور کیوں بھیجے ؟ اس سوال کا بھی جواب نہیں ہے کہ سلمان شہباز کے پاس قرض یا سرمایہ کاری کے لئے جو رقوم بیرون ملک سے ٹی ٹی سے بھیجی گئیں۔ یہ رقم بھیجنے والوں کی شناخت کیا تھی، ان کا ان سے کیا تعلق تھا ؟ یہ کون لوگ ہیں اس کا کوئی جواب نہیں ہے، سلمان شہباز یہ تو کہتے ہیں کہ کوئی یہ تو دیکھے ان کی ( Liabilities) کتنی ہیں لیکن یہ ذمہ داریاں پیدا کرنے والے کون ہیں اس کا جواب نہیں ملا، اس کا بھی جواب نہیں ہے کہ یہ سرمایہ بھیجنے والوں کے پاس اثاثے نہیں تھے جبکہ بعض پاکستان سے کبھی باہر ہی نہیں گئے تھے انھوں نے رقوم بیرون ملک سے بھیجیں، یہ تو ایک مذاق کی سی کیفیت ہے۔
ایسی شخصیات سامنے آچکی ہیں جن کا بیرون ملک کبھی وجود نہیں رہا۔ ان کے ذریعے رقوم شہباز شریف خاندان کو مل رہی ہیں۔ حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں خاص طور پر 2008 کے بعد سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئی ہیں جو اس خاندان کی اہم شخصیت تھے کیونکہ کاروبار، مال، تعلقات اور تمام نیٹ ورک اور پاکستان کے کاروباری اور ریئل اسٹیٹ گروپس سے تعلق سلمان شہباز کا ہوا کرتا تھا۔ اس سوال کا جواب بھی آج تک سامنے نہیں آیا ہے کہ جو شخصیات نیب تحقیقات کا محور ہیں، مثال کے طور پر محمود، منظور، قاسم یہ پر اسرار لوگ کون ہیں ؟ یہ شہباز فیملی کے اکاؤنٹس میں کس انداز سے پیسے بھیجتے تھے ؟ کیوں بھیجتے تھے ؟ اور کہاں سے بھیجتے تھے؟ ،ان کے پاس اس کے ذرائع کیا تھے یہ بھی اہم سوال ہے کہ شہباز شریف خاندان جن لوگوں کو جانتا نہیں تھا، ان کے مشکوک اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے وصول کیوں کیا کرتا تھا ؟ نیب کا الزام ہے کہ در اصل یہ تمام پیسے مبینہ طور پر رشوت ستانی سے جمع کئے گئے تھے۔ کیش کی یہ رقوم پاکستان سے باہر بھیجی جاتی تھیں اور جب ضرورت ہوتی اسے باہر سے ان مشکوک ٹرانزیکشنز کے ذریعے ان شخصیات کے اکاؤنٹس میں بھیجا جایا کرتا تھا، ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ شہباز شریف خاندان کا بیرون ملک کوئی کاروبار نہیں، پھر کون سے لوگ ہیں جو اتنے مہربان ہیں کہ شہباز فیملی، حمزہ یا سلمان شہباز اور شہباز شریف کی اہلیہ کو بیرون ملک سے یہ رقوم بھیجا کرتے ہیں ؟ ترسیلات زر کا قانونی طریقہ منی لانڈرنگ نہیں ہوتا لیکن 26 ملین ڈالر حکمران خاندان کو کس مد میں آئے اور کیوں بھیجے گئے ؟ یہ سوال ہے جو شہباز شریف خاندان کا مستقبل طے کرے گا، یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ ٹیلی گرافک ٹرانسفر (ٹی ٹی ) جرم نہیں ہے مگر جعلی لوگوں اور بے نامی ذرائع سے رقم آنا کیا 100 فیصد جرم نہیں ہے ؟ وہ بھی ان لوگوں کے لئے جو در اصل حکمران خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ پنجاب میں 10 سال تک بلا شرکت غیرے حاکم رہے ہیں، میزبان نے بتایا کہ ہماری کوشش رہی ہے کہ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز پروگرام میں آئیں اور ان سوالوں کے جوابات دیں یا ان کے وکیل آجائیں لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔
آج حمزہ شہباز نے اس سلسلے میں میڈیا سے بات کی ہے، انھوں نے بتایا کہ انھیں جو پیسہ آیا ہے وہ 2005 سے 2008 تک آیا، اس وقت وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے۔ انہوں نے جو بھی کیا اس وقت کے قانون کے مطابق کیا تھا تو کس بات کی کرپشن اور منی لانڈرنگ ؟ میزبان کہتے ہیں وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے لیکن کیا اس بات کا جواب نہیں دینا ہے کہ رقم بھیجنے والے کا کوئی وجود ہے یا نہیں ؟ رقم بھیجنے والے کا کوئی رشتہ ہے یا نہیں ؟ رقم آپ کو کیوں بھیجی جا رہی ہے ؟ رقم بھیجنے والا کیا کبھی پاکستان سے باہر گیا ؟ یا رقم بھیجنے والے کا آپ سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں، ابھی معاملات دونوں شخصیات کے ہیں لیکن بات یہاں نہیں رکے گی اس کا تعلق شہباز شریف سے بھی ہے اور حکام یہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف اس لئے شامل تفتیش ہیں کہ ان کی اہلیہ نصرت شہباز کے اکاؤنٹ میں بہت بڑی تعداد سے باہر سے پیسے آئے ہیں، اسی قسم کے مشکوک اکاؤنٹس سے پیسے آئے ہیں وہ پیسے شہباز شریف نے اپنی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی کے لئے اثاثے خریدنے کے لئے استعمال کئے ہیں، اس کے علاوہ ان کی لندن میں موجود پراپرٹی کے حوالے سے بھی سوالات ہیں کہ اس کی خریداری کیسے کی گئی ہے ؟ ان سوالات نے شہباز شریف خاندان اور خاص طور پر ان کے دونوں صاحبزادوں کو نیب کے الزامات کی جکڑ میں رکھا ہوا ہے ۔یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے ،اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ اسی قسم کے الزامات کی پکڑ اور جکڑ میں ہے ،اور اب دوسری بڑی سیاسی جماعت کی ٹاپ لیڈر شپ ان الزامات کی جکڑ میں گئی ہے ،اس کی قانونی پوزیشن کے حوالے سے معروف قانون دان شاہ خاور نے پروگرام میں بتایا کہ یہ الزامات بڑے سنگین ہیں اور شہباز فیملی کو 26ملین ڈالر کی اس خطیر رقم کا حساب دینا ہوگا۔
حمزہ شہباز نے میڈیا سے اپنی گفتگو میں اقرار کیا ہے کہ یہ تمام رقم 2005 سے 2008 تک ان کے اکاؤنٹ میں آئی ہے وہ ظاہر کردہ ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت شاید پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے لیکن یہ چیز بہت اہم ہے کہ ان کے والد 1999 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، وہ پبلک آفس ہولڈر تھے نیب کے قانون میں جو بینچ مارک مقرر کیا گیا ہے وہ 1985 کے بعد کا ہے اس لئے نیب ان کو شامل تفتیش کرسکتی ہے کیونکہ اس میں مفادات کا ٹکراؤ ضرور سامنے آتا ہے حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سے ان رقوم کے بارے میں پوچھا جاسکتا ہے ان کے والد پبلک آفس ہولڈر تھے ،ان پر یہ کیس بن سکتا ہے کہ حمزہ یا سلمان کو جتنی رقم آتی رہی ہے ان کے ذرائع معلوم نہیں ۔ یہ رقم مشکوک لوگوں کی جانب سے آئی ہے نیب قانون کے مطابق اس کا دائرہ شہباز شریف تک بھی پھیلاسکتی ہے وہ یہ کیس بنا سکتی ہے کہ شہباز شریف کے بیٹوں کو یہ رقوم آئی ہیں اور ان کے والد ایک طویل عرصہ تک وزیر اعلیٰ رہے اس بات کا امکان ہے کہ انہوں نے یہ رقم اپنے آفس میں ہوتے ہوئے کہیں سے حاصل کی اور ان کے صاحبزادے ان کے بے نامی دار ہیں ۔نیب آرڈریننس کے تحت جو پبلک آفس ہولڈ نہ کرتا ہو اس کو ملزم تب بنایا جاسکتا ہے کہ جب اس کا تعلق کسی پبلک آفس ہولڈر کے ساتھ قائم کردیا جائے کہ یہ ان کے لئے کام کر رہے تھے یا ان کی معاونت کر رہے ،اگر نیب صحیح پیمانے پر تفتیش کرے تو اس کا دائرہ کار یقیناً ان کو شہباز شریف تک بھی پھیلانا پڑے گا اور یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ شہباز شریف اس کے حقیقی بینی فشری ہیں اور ان کے صاحبزادے ان کے ایما پر یہ کر رہے تھے۔